عراق: حکومت مخالفین کارکنان کے قتل پر امریکا کی شدید تنقید
21 اگست 2020
امریکی انتظامیہ نے عراق میں حکومت مخالف مظاہرین اور کارکنان کی ٹارگٹ کلنگ پر سخت الفاظ میں نکتہ چینی کی ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنان کے مطابق اب تک ایسے سینکڑوں افراد کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Al-Sudani
اشتہار
عراق: حکومت مخالفین مظاہرین اور کارکنان کے قتل پر امریکا کی شدید تنقید
امریکی انتظامیہ نے عراق میں حکومت مخالف مظاہرین اور کارکنان کی ٹارگٹ کلنگ پر شدید الفاظ میں نکتہ چینی کی ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنان کے مطابق اب تک ایسے سینکڑوں افراد کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔
ایک ایسے وقت جب عراقی وزیراعظم مصطفی القدیمی صدر ٹرمپ سے ملاقات کے لیے امریکا کے دورے پر ہیں، امریکی انتظامیہ نے عراق میں حکومت مخالف انسانی حقوق کے کارکنان اور مظاہرین کو چن چن کر قتل کیے جانے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ انسانی حقوق سے وابستہ کئی نگراں اداروں نے متنبہہ کیا تھا کہ عراق میں حکومت مخالف کارکنان اور مظاہرین کو چن چن کر قتل کیا جا رہا ہے۔
امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان مورگن اورٹیگ نے ایک بیان میں کہا، "ہم سول سوسائٹی کے کارکناں کی ٹارگٹ کلنگ اور بصرہ و بغداد میں مظاہرین پر حملوں سے سخت غصے اور صدمے میں ہیں۔ ہم مشتعل ہیں۔ ہم عراقیوں کے پرامن طریقے سے اجتماع کرنے اور اظہار خیال کرنے کے حق کی بھر پور حمایت کرتے ہیں۔"
محترمہ مورگن نے کارکنان کے قتل کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا، "ہم عراقی حکومت پر زور دیتے ہیں کہ وہ پرامن طور پر حق احتجاج کا استعمال کرنے والے عراقیوں پر حملہ کرنے والی ملیشیا، غنڈوں اور جرائم پیشہ گینگ کو اس کے لیے جوابدہ ٹھرائیں۔ عراقی شہریوں کو بلا خوف و خطر پر امن احتجاج کرنے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔"
انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ اکتوبر میں شروع ہونے والے مظاہروں کے بعد سے اب تک تقریبا چھ سو کارکنان کو چن چن کر قتل کیا جا چکا ہے اور ہزاروں ایسے افراد زخمی ہوچکے ہیں۔ "پر امن مظاہرین کے قاتلوں کا احتساب بہت ضروری ہے۔"
تصویر: AFP/H. Faleh
گزشتہ اکتوبر میں عراق میں دسیوں ہزار افراد نے بد عنوانی، ناقص حکومتی کارکردگی اور بے روزگاری جیسے مسائل کے خلاف، بغداد اور ملک کے جنوبی حصوں میں احتجاجی مظاہرے شروع کیے تھے۔ ابتدا میں خود حکومتی فورسز نے مظاہرین کو منشتر کرنے کے لیے ان پر فائرگ کی جس میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس برس جولائی اور اگست کے مہینے میں ایک بار پھر سے حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں تیزی آئی ہے اور انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ ایک بار پھر سے کارکنان کی ٹارگٹ کلنگ میں بھی تیزی آئی ہے۔
عراق میں انسانی حقوق کے ادارے 'ہائی کمیشن فار ہیمون رائٹس' کے ترجمان علی بیعاتی نے اس بارے میں خبر رساں ادارے ایسو سی ایٹ پریس سے بات چيت میں کہا، "ایسا لگتا ہے کہ ماضی کے احتجاجی مظاہروں کے پیچھے جو افراد تھے انہیں پوری طرح سے ختم کرنے کا ایک اچھا منصوبہ کار فرماں ہے۔" انہوں نے کہا کہ اس طرح کی ٹارگٹ کلنگ پر حکومت پوری طرح سے خاموش ہے اور ظاہر ہے یہ رویہ اس بات کا غماز ہے کہ وہ خود اس میں ملوث ہے۔
اس دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عراق سے جتنی جلدی ممکن ہوسکے اپنی فوجیوں کے انخلاء کا وعدہ دہرایا ہے۔ وائٹ ہاؤس میں عراقی وزير اعظم سے ملاقات کے بعد انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا، "ہم اس دن کے شدت سے منتظر ہیں جب ہماری وہاں کوئی ضرورت نہیں ہوگی۔" تاہم انہوں نے اس بارے میں کوئی تفصیل نہیں بتائی کہ کب تک امریکی فوج عراق سے نکل جائے گی۔
عراق میں اس وقت پانچ ہزار سے زیادہ امریکی فوجی موجود ہیں۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، روئٹرز)
عراق میں احتجاجی مظاہرے، بیسیوں افراد ہلاک
عراق میں گزشتہ تین روز سے غربت اور بے روزگاری کے خلاف جاری احتجاجی مظاہروں میں کم از کم 44 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ مزید مظاہروں کے پیش نظر دارالحکومت بغداد میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔ حالات مزید کشیدہ ہو سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Mohammed
احتجاجی مظاہرے پھیلتے ہوئے
یکم اکتوبر کو ہزاروں مظاہرین نے بغداد میں حکومت مخالف مظاہروں میں شرکت کی۔ ان کے مطالبات میں بدعنوانی کا خاتمہ، بے روزگاری میں کمی اور بہتر عوامی سہولیات کی فراہمی شامل تھے۔ مظاہرین نے شہر کے حکومتی عمارات اور غیرملکی سفارت خانوں والے گرین زون میں داخل ہونے کی کوشش بھی کی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. al Mohammedaw
پولیس کا کریک ڈاؤن
پولیس نے مظاہرین کی گرین زون میں داخل ہونے کی کوشش کا جواب آنسو گیس، سڑکوں کی بندش اور ربڑ کی گولیوں اور لائیو فائرنگ سے دیا۔ مظاہرین نے التحریر اسکوائر چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ اس دوران دو سو سے زائد مظاہرین زخمی اور ایک ہلاک ہو گیا۔ اسی دن عراق کے کئی دیگر شہروں میں بھی درجنوں افراد زخمی ہوئے اور ایک شخص مارا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Mohammed
صبر و تحمل کی اپیل
نئی عراقی حکومت کو اقتدار سنبھالے ابھی صرف ایک سال ہی ہوا ہے۔ ان مظاہروں کے بعد بغداد میں سکیورٹی بڑھا دی گئی اور عراقی صدر نے مظاہرین سے قانون کی پاسداری کرنے کی اپیل کی۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کے اعلٰی اہلکاروں نے اس صورتحال پر ’گہری تشویش‘ ظاہر کی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/F. Belaid
مزید احتجاج، مزید ہلاکتیں
اس کے باوجود مظاہرین نے اپنا احتجاج جاری رکھا۔ دو اکتوبر کو بغداد کے پرانے حصے میں مظاہروں کا آغاز ہوا۔ پولیس مظاہرین سے نمٹنے کے لیے وہاں پہلے ہی موجود تھی اور نئے سرے سے فائرنگ کے واقعات بھی پیش آئے۔ شام تک مزید سات افراد ہلاک ہو چکے تھے اور دو دن میں ہی ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر نو ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Mizban
احتجاجی مظاہرے پھیلتے ہوئے
یہ احتجاجی مظاہرے بغداد سے ملک کے جنوبی حصوں تک پھیل رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ فسادات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ کئی علاقوں میں مظاہرین نے سرکاری عمارات کو آگ بھی لگا دی۔ عراقی وزیر اعظم نے ان مظاہروں کا الزام ’جارحیت پسندوں‘ پر عائد کرتے ہوئے ایک ہنگامی قومی سکیورٹی اجلاس طلب کر لیا۔ کئی سیاستدان حکومت اور کئی دیگر مظاہرین کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Mizban
بغداد میں کرفیو لیکن ہلاکتیں جاری
ابھی تک ملک کے کئی حصوں میں جاری احتجاج کے نتیجے میں کم از کم 44 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ جنوبی شہر ناصریہ میں اب تک 18 اور بغداد میں 16 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ زخمی ہونے والوں کی تعداد بھی سینکڑوں میں ہے۔ عراق کے اعلیٰ شیعہ رہنما سید علی حسینی سیستانی نے فریقین سے پرامن رہنے کی اپیل کی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Mohammed
عراق کا سفر نہ کریں!
قطر کی وزارت خارجہ نے اپنے شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ فی الحال عراق کا سفر کرنے سے گریز کریں۔ خلیجی ملک بحرین نے بھی اسی طرح کا ایک انتباہی پیغام جاری کیا ہے۔ ایران نے بھی اپنے شہریوں کو عراق جانے سے روک دیا ہے۔ بغداد حکومت نے بھی سرحدوں کی نگرانی سخت بنانے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Al-Rubaye
ایران کا اسرائیل اور امریکا پر الزام
ایران کے ایک سینئر اہلکار اور سیاستدان محمد امامی کاشانی نے بدامنی کے ان واقعات کا الزام اسرائیل اور امریکا پر عائد کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ممالک نہیں چاہتے کہ عراق میں رواں ماہ کے اواخر میں کربلا کا اجتماع پرامن طریقے سے ہو۔ ایران ماضی میں بھی ایسے ہی الزامات عائد کرتا آیا ہے۔
تصویر: Reuters/K. al-Mousily
حالات مزید بگڑ سکتے ہیں
عراقی حکومت نے بغداد کے ساتھ ساتھ تین دیگر جنوبی شہروں میں بھی غیرمعینہ مدت کے لیے کرفیو نافذ کر دیا ہے۔ دوسری جانب ملک بھر میں مظاہرے پھیلتے جا رہے ہیں۔ دارالحکومت کے نواح میں ہوائی اڈے کے قریب بھی مظاہرے جاری ہیں۔ عراق اور ایران کی سرحد بھی بند کر دی گئی ہے۔