1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق: حکومت مخالف مظاہروں پر فائرنگ سے ہلاکتیں

27 فروری 2021

جنوبی عراق میں سکیورٹی فورسز نے ایک بار پھر حکومت مخالف مظاہرین پر فائرنگ کی جس میں متعدد افراد کے ہلاک اور زخمی ہونے کی خبر ہے۔

Irak Bagdad Demonstration gegen Korruption
تصویر: Murtadha Sudani/Anadolu Agency/Getty Images

جنوبی عراق کے شہر ناصریہ میں عینی شاہدین نے صحافیوں کو بتایا  کہ سکیورٹی فورسز نے جمعے کے روز حکومت مخالف مظاہروں پر فائر کھول دیا۔ اسپتال کے ذرائع نے خبر رساں ادارے روئٹرو  کو بتایا کہ بیشتر افراد گولیاں لگنے سے ہلاک ہوئے۔

پر تشدد مظاہروں کے دوران اب تک تقریبا 120مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے 57 اہلکار زخمی بھی ہوئے ہیں۔ اگرچہ کورونا وائرس کی وجہ سے علاقے میں لاک ڈاؤن نافذ ہے تاہم مظاہرین اس کی پراہ کیے بغیر ریاست ذی قار کے گورنر کے استعفے کا  مطالبہ  کرنے کے لیے سڑکوں پر آ گئے تھے۔

یہ مظاہرے علاقے میں حکومت کی خراب کارکردگی کے خلاف ہو رہے ہیں۔ بعض اطلاعات کے مطابق احتجاج کے دوران جب پتھروں اور آتشی مادے سے لیس بعض مظاہرین نے سرکاری عمارتوں میں داخل ہونے کی کوشش کی تو سکیورٹی فورسز نے بھیڑ پر قابو پانے کے لیے فائر کھول دیا۔

ایمنسٹی کی حکومت پر نکتہ چینی

مظاہرین نے شہر کے اہم پل کو بند کر دیا تھا اور اس مقام پر سکیورٹی فورسز نے ان پر فائرنگ کی۔ اس واقعے کی ایک ویڈیو حاصل کرنے کے بعد عراق میں انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے دفتر نے بھی مظاہرین کی ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔

عراقی مہاجر بچے تباہ کن صورتحال سے دوچار

02:33

This browser does not support the video element.

تنظیم نے ایک بیان میں کہا، "ایمنسٹی نے ناصریہ سے آنے والی ان ویڈیوز کی تصدیق کی ہے جس میں فائرنگ کی واضح آواز سنی جاسکتی ہے، اس میں پولیس کو فائرنگ کرتے اور گلیوں میں مظاہرین کی لاشیں دیکھیں جا سکتی ہیں۔"

 تنظیم نے عراقی حکومت سے خون خرابہ بند کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ان ہلاکتوں کے ذمہ داران کو قانون کی گرفت میں لانے کی ضرورت ہے۔

عراق میں مظاہروں کا سلسلہ

جنوبی عراق حالیہ چند برسوں سے مظاہروں کا گڑھ رہا ہے کیونکہ عشروں سے جاری تنازعے کی وجہ سے علاقے میں حکومت کی سروسز کا بہت برا حال ہے اور لوگ کافی پریشان ہیں۔ بجلی اور پانی کے مسائل نے لوگوں کی زندگیاں اجیرن کر رکھی ہیں۔

سن 2019 میں بھی اس علاقے بڑے پیمانے پر پرتشدد مظاہرے ہوئے تھے جس کے سبب اس وقت کے وزیر اعظم عادل عبد المہدی کو استعفی دینا پڑا تھا۔ اس دوران مہینوں تک جاری رہنے والے مظاہروں میں چھ سو سے زیادہ مظاہرین ہلاک ہوئے تھے۔

موجودہ وزیر اعظم مصطفی الخادمی نے ہلاک ہونے والوں کے لیے انصاف کا وعدہ کیا تھا تاہم اب تک کوئی عدالتی کارروائی نہیں شروع ہو پائی ہے۔

جمعے کے روز تشدد کے نئے واقعات ایک ایسے وقت پیش آئے جب پوپ فرانسسس پہلی بار عراق کا دورہ کرنے والے ہیں۔ یہ کسی پوپ کی جانب سے عراق کا پہلا دورہ ہوگا۔

ص ز/  ش ج  (روئٹڑز، اے ایف پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں