جنوبی عراق میں سکیورٹی فورسز نے ایک بار پھر حکومت مخالف مظاہرین پر فائرنگ کی جس میں متعدد افراد کے ہلاک اور زخمی ہونے کی خبر ہے۔
اشتہار
جنوبی عراق کے شہر ناصریہ میں عینی شاہدین نے صحافیوں کو بتایا کہ سکیورٹی فورسز نے جمعے کے روز حکومت مخالف مظاہروں پر فائر کھول دیا۔ اسپتال کے ذرائع نے خبر رساں ادارے روئٹرو کو بتایا کہ بیشتر افراد گولیاں لگنے سے ہلاک ہوئے۔
پر تشدد مظاہروں کے دوران اب تک تقریبا 120مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے 57 اہلکار زخمی بھی ہوئے ہیں۔ اگرچہ کورونا وائرس کی وجہ سے علاقے میں لاک ڈاؤن نافذ ہے تاہم مظاہرین اس کی پراہ کیے بغیر ریاست ذی قار کے گورنر کے استعفے کا مطالبہ کرنے کے لیے سڑکوں پر آ گئے تھے۔
یہ مظاہرے علاقے میں حکومت کی خراب کارکردگی کے خلاف ہو رہے ہیں۔ بعض اطلاعات کے مطابق احتجاج کے دوران جب پتھروں اور آتشی مادے سے لیس بعض مظاہرین نے سرکاری عمارتوں میں داخل ہونے کی کوشش کی تو سکیورٹی فورسز نے بھیڑ پر قابو پانے کے لیے فائر کھول دیا۔
ایمنسٹی کی حکومت پر نکتہ چینی
مظاہرین نے شہر کے اہم پل کو بند کر دیا تھا اور اس مقام پر سکیورٹی فورسز نے ان پر فائرنگ کی۔ اس واقعے کی ایک ویڈیو حاصل کرنے کے بعد عراق میں انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے دفتر نے بھی مظاہرین کی ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔
عراقی مہاجر بچے تباہ کن صورتحال سے دوچار
02:33
تنظیم نے ایک بیان میں کہا، "ایمنسٹی نے ناصریہ سے آنے والی ان ویڈیوز کی تصدیق کی ہے جس میں فائرنگ کی واضح آواز سنی جاسکتی ہے، اس میں پولیس کو فائرنگ کرتے اور گلیوں میں مظاہرین کی لاشیں دیکھیں جا سکتی ہیں۔"
تنظیم نے عراقی حکومت سے خون خرابہ بند کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ان ہلاکتوں کے ذمہ داران کو قانون کی گرفت میں لانے کی ضرورت ہے۔
عراق میں مظاہروں کا سلسلہ
جنوبی عراق حالیہ چند برسوں سے مظاہروں کا گڑھ رہا ہے کیونکہ عشروں سے جاری تنازعے کی وجہ سے علاقے میں حکومت کی سروسز کا بہت برا حال ہے اور لوگ کافی پریشان ہیں۔ بجلی اور پانی کے مسائل نے لوگوں کی زندگیاں اجیرن کر رکھی ہیں۔
سن 2019 میں بھی اس علاقے بڑے پیمانے پر پرتشدد مظاہرے ہوئے تھے جس کے سبب اس وقت کے وزیر اعظم عادل عبد المہدی کو استعفی دینا پڑا تھا۔ اس دوران مہینوں تک جاری رہنے والے مظاہروں میں چھ سو سے زیادہ مظاہرین ہلاک ہوئے تھے۔
موجودہ وزیر اعظم مصطفی الخادمی نے ہلاک ہونے والوں کے لیے انصاف کا وعدہ کیا تھا تاہم اب تک کوئی عدالتی کارروائی نہیں شروع ہو پائی ہے۔
جمعے کے روز تشدد کے نئے واقعات ایک ایسے وقت پیش آئے جب پوپ فرانسسس پہلی بار عراق کا دورہ کرنے والے ہیں۔ یہ کسی پوپ کی جانب سے عراق کا پہلا دورہ ہوگا۔
ص ز/ ش ج (روئٹڑز، اے ایف پی)
عراق میں احتجاجی مظاہرے، بیسیوں افراد ہلاک
عراق میں گزشتہ تین روز سے غربت اور بے روزگاری کے خلاف جاری احتجاجی مظاہروں میں کم از کم 44 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ مزید مظاہروں کے پیش نظر دارالحکومت بغداد میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔ حالات مزید کشیدہ ہو سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Mohammed
احتجاجی مظاہرے پھیلتے ہوئے
یکم اکتوبر کو ہزاروں مظاہرین نے بغداد میں حکومت مخالف مظاہروں میں شرکت کی۔ ان کے مطالبات میں بدعنوانی کا خاتمہ، بے روزگاری میں کمی اور بہتر عوامی سہولیات کی فراہمی شامل تھے۔ مظاہرین نے شہر کے حکومتی عمارات اور غیرملکی سفارت خانوں والے گرین زون میں داخل ہونے کی کوشش بھی کی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. al Mohammedaw
پولیس کا کریک ڈاؤن
پولیس نے مظاہرین کی گرین زون میں داخل ہونے کی کوشش کا جواب آنسو گیس، سڑکوں کی بندش اور ربڑ کی گولیوں اور لائیو فائرنگ سے دیا۔ مظاہرین نے التحریر اسکوائر چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ اس دوران دو سو سے زائد مظاہرین زخمی اور ایک ہلاک ہو گیا۔ اسی دن عراق کے کئی دیگر شہروں میں بھی درجنوں افراد زخمی ہوئے اور ایک شخص مارا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Mohammed
صبر و تحمل کی اپیل
نئی عراقی حکومت کو اقتدار سنبھالے ابھی صرف ایک سال ہی ہوا ہے۔ ان مظاہروں کے بعد بغداد میں سکیورٹی بڑھا دی گئی اور عراقی صدر نے مظاہرین سے قانون کی پاسداری کرنے کی اپیل کی۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کے اعلٰی اہلکاروں نے اس صورتحال پر ’گہری تشویش‘ ظاہر کی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/F. Belaid
مزید احتجاج، مزید ہلاکتیں
اس کے باوجود مظاہرین نے اپنا احتجاج جاری رکھا۔ دو اکتوبر کو بغداد کے پرانے حصے میں مظاہروں کا آغاز ہوا۔ پولیس مظاہرین سے نمٹنے کے لیے وہاں پہلے ہی موجود تھی اور نئے سرے سے فائرنگ کے واقعات بھی پیش آئے۔ شام تک مزید سات افراد ہلاک ہو چکے تھے اور دو دن میں ہی ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر نو ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Mizban
احتجاجی مظاہرے پھیلتے ہوئے
یہ احتجاجی مظاہرے بغداد سے ملک کے جنوبی حصوں تک پھیل رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ فسادات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ کئی علاقوں میں مظاہرین نے سرکاری عمارات کو آگ بھی لگا دی۔ عراقی وزیر اعظم نے ان مظاہروں کا الزام ’جارحیت پسندوں‘ پر عائد کرتے ہوئے ایک ہنگامی قومی سکیورٹی اجلاس طلب کر لیا۔ کئی سیاستدان حکومت اور کئی دیگر مظاہرین کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Mizban
بغداد میں کرفیو لیکن ہلاکتیں جاری
ابھی تک ملک کے کئی حصوں میں جاری احتجاج کے نتیجے میں کم از کم 44 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ جنوبی شہر ناصریہ میں اب تک 18 اور بغداد میں 16 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ زخمی ہونے والوں کی تعداد بھی سینکڑوں میں ہے۔ عراق کے اعلیٰ شیعہ رہنما سید علی حسینی سیستانی نے فریقین سے پرامن رہنے کی اپیل کی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Mohammed
عراق کا سفر نہ کریں!
قطر کی وزارت خارجہ نے اپنے شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ فی الحال عراق کا سفر کرنے سے گریز کریں۔ خلیجی ملک بحرین نے بھی اسی طرح کا ایک انتباہی پیغام جاری کیا ہے۔ ایران نے بھی اپنے شہریوں کو عراق جانے سے روک دیا ہے۔ بغداد حکومت نے بھی سرحدوں کی نگرانی سخت بنانے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Al-Rubaye
ایران کا اسرائیل اور امریکا پر الزام
ایران کے ایک سینئر اہلکار اور سیاستدان محمد امامی کاشانی نے بدامنی کے ان واقعات کا الزام اسرائیل اور امریکا پر عائد کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ممالک نہیں چاہتے کہ عراق میں رواں ماہ کے اواخر میں کربلا کا اجتماع پرامن طریقے سے ہو۔ ایران ماضی میں بھی ایسے ہی الزامات عائد کرتا آیا ہے۔
تصویر: Reuters/K. al-Mousily
حالات مزید بگڑ سکتے ہیں
عراقی حکومت نے بغداد کے ساتھ ساتھ تین دیگر جنوبی شہروں میں بھی غیرمعینہ مدت کے لیے کرفیو نافذ کر دیا ہے۔ دوسری جانب ملک بھر میں مظاہرے پھیلتے جا رہے ہیں۔ دارالحکومت کے نواح میں ہوائی اڈے کے قریب بھی مظاہرے جاری ہیں۔ عراق اور ایران کی سرحد بھی بند کر دی گئی ہے۔