1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق رمضان میں بھی خونریز حملوں کی زد میں

27 جولائی 2012

عراق میں ابھی تک امن قائم نہیں ہو سکا ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے وہاں رمضان کے مہینے میں بم حملوں میں تیزی آ جاتی ہے۔ اس سال بھی اب تک ایسا ہی ہو رہا ہے اور بہت سے شہری مارے جا چکے ہیں۔

تصویر: picture-alliance/dpa

بائیس جولائی پیر کا دن عراق میں مئی 2010ء کے بعد سے آج تک کا سب سے خونریز دن تھا۔ اس روز پورے ملک میں 115 سے زائد افراد مارے گئے جبکہ زخمیوں کی تعداد اس سے بھی دگنی تھی۔ یہ خونریزی عراق کے 14 مختلف شہروں میں ہوئی اور مجموعی طور پر تقریباﹰ بیک وقت 22 بم دھماکے کیے گئے۔

رمضان کے اسلامی مہینے کے آغاز پر عراق میں کیے جانے والے یہ واحد بم حملے نہیں تھے۔ بائیس جولائی سے پہلے کے ہفتوں اور بعد کے دنوں میں بھی دجلہ اور فرات کی سرزمین پر ایسے حملے تواتر سے ہوتے رہے اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔

محمودیہ کے شہر میں ایک کار بم حملے کے بعد کا منظرتصویر: Reuters

اس سال جون میں تو مشرق وسطیٰ کی اس ریاست میں بیسیوں حملوں میں اتنے زیادہ لوگ مارے گئے کہ ان کی تعداد وہاں دو سال قبل جون 2010ء میں ہونے والی ہلاکتوں کی مجموعی تعداد کے برابر ہو گئی تھی۔ یہ صورت حال اس لیے پریشان کن ہے کہ دو سال پہلے تو عراق میں حالات بالکل مختلف تھے۔

تب ملک میں دہشت گردی کے واقعات بتدریج کم ہونا شروع ہو گئے تھے۔ عراقی عوام کی اکثریت کو کافی حد تک یہ امید ہو چلی تھی کہ وہ بھی معمول کی پر امن زندگی گزار سکتے ہیں۔

عراق باڈی کاؤنٹ (Iraqbodycount.com) ایک ایسی غیر جانبدار ویب سائٹ ہے جو اس ملک میں ہونے والی شہری ہلاکتوں کا ریکارڈ رکھتی ہے۔ اس ویب سائٹ کے مطابق نو سال قبل عراق میں امریکی اور برطانوی فوجی مداخلت کے بعد سے آج تک نومبر 2011ء مقابلتاﹰ سب سے پر امن مہینہ رہا تھا۔

گزشتہ برس نومبر میں بھی عراق میں کافی شہری ہلاکتیں ہوئی تھیں مگر ان کی تعداد اس سے پہلے اور بعد کے مہینوں کے مقابلے میں سب سے کم تھی۔ گزشتہ نومبر کے بعد سے لگتا ہے کہ عراق میں دہشت گردی کی وجہ سے انسانی ہلاکتوں کا پہیہ اب الٹا گھومنا شروع ہو چکا ہے۔

کرکوک میں ایک بم حملے کے بعد لی گئی ایک تصویرتصویر: Reuters

دہشت گردی کے واقعات اور بم حملوں میں اس حالیہ اضافے کی چند ممکنہ وجوہات بھی ہیں۔ بائیس جولائی کو 14 شہروں میں تقریباﹰ بیک وقت کیے گئے حملوں سے صرف دو روز قبل ملکی وزارت داخلہ نے اعلان کیا تھا کہ دارالحکومت بغداد میں القاعدہ کے سیل کا سربراہ گرفتار کر لیا گیا ہے۔

اُس سے بھی صرف ایک ہفتہ قبل زیادہ تر سنی آبادی والے صوبے انبار میں القاعدہ کے کئی سرکردہ ارکان کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔ جون سے پہلے کی بات کی جائے تو اپریل میں عراقی سکیورٹی اہلکاروں نے تکریت سے دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ کے ایک سرکردہ رکن کو حراست میں لے لیا تھا اور دیالہ کے صوبے کے بارے میں تو یہ کہا گیا تھا کہ وہاں سے القاعدہ کے پورے سیل کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔

پچھلے سال کے آخر میں عراق سے اپنے فوجی دستوں کے انخلاء کی تکمیل کے وقت امریکی کمانڈروں نے کہا تھا کہ القاعدہ نیٹ ورک اب عراق میں کوئی حقیقی خطرہ نہیں رہا۔ عراق کی موجودہ صورت حال ایسے بیانات کی نفی کرتی ہے۔

B. Svensson, mm / D. Hodali, km

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں