عراقی کرد تیل کی دولت سے مالا مال کرد علاقے پر مشتمل ایک آزاد ریاست کے قیام کی خاطر ایک ریفرنڈم کا انعقاد کرا رہے ہیں۔ عراق، ترکی، شام اور ایران آج ہونے والے ریفرنڈم کے مخالف ہیں جبکہ اسرائیل اس کے حق میں ہے۔
اشتہار
عراق کے نیم خودمختار کرد علاقے میں آج عراق سے آزادی کی خاطر ایک ریفرنڈم کا انعقاد کروایا جا رہا ہے، جس پر نہ صرف بغداد حکومت بلکہ ایران، ترکی اور شام بھی اپنی تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ یہ امر اہم کے اس ریفرنڈم کے نتائج پر عملدرآمد لازمی نہیں ہو گا۔
کُرد ترکی، ایران اور شام میں بھی آباد ہیں۔ ان ممالک کو خدشہ ہے کہ کردستان کے قیام کی صورت میں ان ممالک میں آباد کرد بھی اپنی آزادی اور کردستان کے ساتھ الحاق کا نعرہ بلند کر دیں گے۔ یہ ممالک آزاد کردستان کا تصور پیش کرنے والے کرد اور سابق فوجی لیڈر مسعود بارزانی کو متعدد مرتبہ نتائج سے خبردار کر چکے ہیں۔
دوسری طرف علاقائی سطح پر صرف اسرائیل ہی ایک ایسا ملک ہے، جو عراقی کردوں کی آزاد ریاست کی حمایت کرتا ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یوں اسرائیل اور کردوں کے مابین اچھے تعلقات قائم ہو سکیں گے اور ایسے امکانات پیدا ہو جائیں گے کہ یہ دونوں مل کر ایران کے اثر و رسوخ کے خلاف موثر کارروائی کر سکیں گے۔ اسرائیلی وزیر اعظم کردوں کی ایک آزاد ریاست کے قیام کو قابل قبول قرار دے چکے ہیں۔
ووٹنگ کا انعقاد عراق کے نیم خودمختار کردستان کے تین بڑے شمالی صوبوں اربیل، سلمانیہ اور دھوک میں کروایا جا رہا ہے۔ ان کے علاوہ ایران، ترکی اور شام سے ملحق سرحدی عراقی علاقوں میں بھی ووٹ ڈالیں گئے ہیں، جن میں تیل کی دولت سے مالا مال کرکوک بھی شامل ہے۔
اس ریفرنڈم کے مثبت نتیجے کی صورت میں کرد قوم کو فوری طور پر آزادی حاصل نہیں ہو گی بلکہ اُسے بغداد حکومت کے ساتھ انتہائی سنجیدہ نوعیت کا مذاکراتی عمل شروع کرنا ہو گا، جو کئی برسوں پر محیط ہو سکتا ہے۔
بغداد حکومت نے کہا ہے کہ وہ عراق کے اتحاد اور سلامتی کے لیے ہر ممکن اقدام اٹھائے گی۔ عراق حکومت کے مطابق وہ نیم خود مختار کردستان کی تیل کی فروخت کو نشانہ بنائیں گے۔ عراقی کرد فی دن کے حساب سے چھ لاکھ بیرل خام تیل برآمد کرتے ہیں۔
اس نیم خود مختار علاقے کے دوسرے بڑے شہر سلمانیہ میں چالیس سالہ دیار عمر کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہم اپنی آزادی ووٹ کے ذریعے حاصل کریں گے۔ میں خوش ہوں کہ میں اپنی حیات میں ایسا ریفرنڈم دیکھ رہا ہوں اور اس میں شامل ہوں۔‘‘
کرد نیوز ایجنسی روداو کے مطابق مجموعی طور پر بارہ ہزار سے زائد پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے ہیں اور ریفرنڈم میں تریپن لاکھ رجسٹر ووٹر حصہ لینے کے اہل ہیں۔ متنازعہ کرکوک کے علاقے میں مساجد سے اس ریفرنڈم میں حصہ لینے کے لیے اعلانات کیے گئے ہیں۔
اس ریفرنڈم کے نتائج پولنگ ختم ہونے کے چوبیس گھنٹوں بعد سامنے آ سکتے ہیں۔ اندازوں کے مطابق اکثریتی طور پر اس ریفرنڈم کے نتائج ایک آزاد کردستان ریاست کے قیام کے حق میں آئیں گے۔
داعش کے خلاف برسر پیکار ایران کی کُرد حسینائیں
ایران کی تقریباﹰ دو سو کرد خواتین عراق کے شمال میں داعش کے خلاف لڑ رہی ہیں۔ یہ کردوں کی فورس پیش مرگہ میں شامل ہیں اور انہیں امریکی افواج کی حمایت بھی حاصل ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق جب بھی داعش کے عسکریت پسندوں کی طرف سے ایران کی ان کرد خواتین پر مارٹر گولے برسائے جاتے ہیں تو سب سے پہلے یہ ان کا جواب لاؤڈ اسپیکروں پر گیت گا کر دیتی ہیں۔ اس کے بعد مشین گنوں کا رخ داعش کے ٹھکانوں کی طرف کر دیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
اکیس سالہ مانی نصراللہ کا کہنا ہے کہ وہ گیت اس وجہ سے گاتی ہیں تاکہ داعش کے عسکریت پسندوں کو مزید غصہ آئے، ’’اس کے علاوہ ہم ان کو بتانا چاہتی ہیں کہ ہمیں ان کا خوف اور ڈر نہیں ہے۔‘‘ تقریباﹰ دو سو ایرانی کرد خواتین ایران چھوڑ کر عراق میں جنگ کر رہی ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
یہ کرد خواتین چھ سو جنگ جووں پر مشتمل ایک یونٹ کا حصہ ہیں۔ اس یونٹ کا کردستان فریڈم پارٹی سے اتحاد ہے۔ کرد اسے ’پی اے کے‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
چھ سو جنگ جووں پر مشتمل یہ یونٹ اب عراقی اور امریکی فورسز کے زیر کنٹرول اس یونٹ کے ساتھ ہے، جو موصل میں داعش کے خلاف برسر پیکار ہے۔ کرد جنگ جووں کا اپنے ایک ’آزاد کردستان‘ کے قیام کا بھی منصوبہ ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
مستقبل میں کرد جنگ جو شام، عراق، ترکی اور ایران کے چند حصوں پر مشتمل اپنا وطن بنانا چاہتے ہیں لیکن ان تمام ممالک کی طرف سے اس منصوبے کی شدید مخالفت کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی کرد باغیوں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ایک کرد خاتون جنگ جو کا کہنا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے لڑ رہی ہیں۔ وہ سرزمین چاہیے ایران کے قبضے میں ہو یا عراق کے وہ اپنی سر زمین کے لیے ایسے ہی کریں گی۔ ان کے سامنے چاہے داعش ہو یا کوئی دوسری طاقت اوہ اپنی ’مقبوضہ سرزمین‘ کی آزادی کے لیے لڑیں گی۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
اس وقت یہ خواتین مرد کردوں کے ہم راہ عراق کے شمال میں واقع فضلیہ نامی ایک دیہات میں لڑ رہی ہیں۔ ایک بتیس سالہ جنگ جو ایوین اویسی کا کہنا تھا، ’’یہ حقیقت ہے کہ داعش خطرناک ہے لیکن ہمیں اس کی پروا نہیں ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ایک جنگ جو کا کہنا تھا کہ اس نے پیش مرگہ میں شمولیت کا فیصلہ اس وقت کیا تھا، جب ہر طرف یہ خبریں آ رہی تھیں کہ داعش کے فائٹرز خواتین کے ساتھ انتہائی برا سلوک کر رہے ہیں، ’’میں نے فیصلہ کیا کہ ان کو میں بھی جواب دوں گی۔‘‘
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ان خواتین کی شمالی عراق میں موجودگی متنازعہ بن چکی ہے۔ ایران نے کردستان کی علاقائی حکومت پر ان خواتین کو بے دخل کرنے کے لیے دباؤ بڑھا دیا ہے۔ سن دو ہزار سولہ میں کرد جنگ جووں کی ایرانی دستوں سے کم از کم چھ مسلح جھڑپیں ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ان کے مرد کمانڈر حاجر باہمانی کا کے مطابق ان خواتین کے ساتھ مردوں کے برابر سلوک کیا جاتا ہے اور انہیں ان خواتین پر فخر ہے۔ ان خواتین کو چھ ہفتوں پر مشتمل سنائپر ٹریننگ بھی فراہم کی گئی ہے۔