عراق سے امريکی افواج کا انخلاء، فائدہ مند يا نقصان دہ؟
عاصم سلیم
18 فروری 2018
عراقی حکومت نے پچھلے سال اعلان کيا تھا ملک ميں ’اسلامک اسٹيٹ‘ کو شکست دے دی گئی ہے۔ اسی تناظر ميں ان دنوں عراق سے امريکی افواج کا انخلاء جاری ہے تاہم چند حلقے مکمل انخلاء کے حق ميں نہيں ہيں۔
اشتہار
مغربی عراق ميں قائم کے مقام پر تعينات امريکی ليفٹيننٹ کائل ہيگرٹی اور ديگر فوجيوں نے ’اسلامک اسٹيٹ‘ کو پسپا کر کے شہريوں کو علاقے ميں واپس آتے ہوئے ديکھا۔ ان کے خيال ميں يہ خطے ميں قيام امن کی نشانی تھی تاہم ان کا يہ خيال غلط ثابت ہوا۔ بعد ازاں ايک اور مشن پر جب ہيگرٹی نے چند مقامی افراد سے ان کی رائے جانی تو پتہ يہ چلا قائم ميں آنے والے در اصل ايک قريبی ديہات پر قبضے کے تناظر ميں پناہ کے ليے وہاں پہنچے تھے۔ ان لوگوں کو ان کے آبائی علاقے سے دھکيلنے والے لوگ شيعہ مليشيا کے ارکان تھے جنہوں نے علاقے سے داعش کو شکست دے کر ديہات پر قبضہ کيا۔
اس پيش رفت سے عراق ميں تعينات امريکی دستوں کو ملا جلا پيغام ملتا ہے۔ اگرچہ امريکی قيادت ميں عسکری کارروائی کے نتيجے ميں عراق کے بيشتر حصوں سے دہشت گرد تنظيم اسلامک اسٹيٹ کو پسپا کر ديا گيا ہے تاہم علاقائی سطح پر انتہا پسندی کو ہوا دينے والی تفريق اور مسائل وہاں اب بھی برقرار ہيں۔
بغداد حکومت کی جانب سے گزشتہ برس کے اختتام پر اسلامک اسٹيٹ کے خلاف کاميابی کے باقاعدہ اعلان کے بعد رواں برس کے اوائل سے امريکا، عراق سے اپنی افواج کے انخلاء کے عمل ميں مصروف ہے۔ امريکا نے مشرق وسطٰی ميں داعش کے خلاف فوجی کارروائی سن 2014 ميں شروع کی تھی۔ اس وقت عراق سے امريکی افواج کے انخلاء کا عمل تو جاری ہے ليکن واشنگٹن اور بغداد، دونوں حکومتوں نے اس بارے ميں کوئی حتمی اطلاع نہيں دی ہے کہ کتنے فوجی واپس بلائے جائيں گے۔
دونوں ملکوں کی افواج کے کمانڈرز خبردار کرتے ہيں کہ وسيع پيمانے پر انخلاء کے نتيجے ميں عراق ميں داعش کے خلاف کاميابياں يا پيش قدمياں منفی طور پر متاثر ہو سکتی ہيں۔ عراقی فوج کا اب بھی امريکی فوج پر کافی انحصار ہے۔ علاوہ ازيں اقليتوں پر مشتمل عراق کی متعدد برادرياں، شيعہ اکثريت والی مرکزی حکومت کو ايک حد ميں رکھنے کے ليے امريکی فوج کی موجودگی کو اہم قرار ديتی ہيں۔ يہی وجہ ہے کہ بغداد ميں سياسی اثر و رسوخ کی حامل ايرانی حمايت يافتہ شيعہ مليشيا، امريکی افواج کے مکمل انخلاء کی حمايت کر رہی ہيں جبکہ چند قوتيں ملک ميں امريکی موجودگی کو قبضے سے بھی تعبير کرتی ہيں۔
جرمن فوٹوگرافر ’جنگ کی ہولناکیوں‘ کی تلاش میں
آنڈی اسپیرا ایک جرمن فوٹوگرافر ہے، جو دنیا کے تقریباً تمام بحران زدہ ممالک اور خطّوں بشمول عراق، افغانستان، شام اور نائیجیریا جا چکا ہے اور ہمیشہ ایسی تصویریں لے کر آتا ہے، جو دیکھنے والے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہیں۔
تصویر: J. Idrizi
جنگوں کا فوٹوگرافر
1984ء میں جرمن شہر ہاگن میں پیدا ہونے والے آنڈی اسپیرا نے ابتدائی تعلیم کے بعد وسطی امریکا اور جنوب مشرقی ایشیا کے سفر کیے۔ اسی دوران اُنہیں فوٹوگرافی کا شوق ہوا۔ وہ بار بار بحران زدہ خطّوں میں جاتے ہیں۔ وہ صرف اور صرف بلیک اینڈ وائٹ فوٹوگرافی کرتے ہیں اور طویل المدتی منصوبوں پر کام کرتے ہیں۔ بے شمار مشہور اخبارات اور جریدوں میں اُن کی تصاویر شائع ہو چکی ہیں۔
تصویر: J. Idrizi
طویل المدتی منصوبہ ’کشمیر‘
پاکستان اور بھارت کا سرحدی خطّہ کشمیر دنیا بھر میں سب سے زیادہ فوجی موجودگی والا خطّہ تصور کیا جاتا ہے۔ وہاں 1989ء سے جاری تنازعہ اب تک تقریباً ستّر ہزار انسانوں کو نگل چکا ہے۔ اپنے طویل المدتی منصوبے ’کشمیر‘ کے لیے آنڈی اسپیرا کو 2010ء میں ’لائیکا آسکر بارناک ایوارڈ‘ سے نوازا گیا تھا۔ اس تصویر کے بارے میں اسپیرا بتاتا ہے کہ ان دو چھوٹے بچوں نے جنگ کے سوا اور کچھ نہیں دیکھا۔
تصویر: A. Spyra
بحرانی خطّوں کا روزمرہ کا معمول
مئی 2014ء میں آنڈی اسپیرا نے مزارِ شریف کی نیلی مسجد میں جمعے کی نماز کی یہ تصویر اُتاری۔ پندرہویں صدی میں بننے والی اس مسجد کے بارےمیں مشہور ہے کہ وہاں پیغمبر اسلام کے داماد دفن ہیں، اسی لیے افغانستان بھر سے زائرین یہاں آتے ہیں۔ اسپیرا کے مطابق وہ بلیک اینڈ وائٹ میں اس لیے تصویریں بناتے ہیں کیونکہ اس طرح ’تصویر کا جذباتی پہلو زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے‘۔
تصویر: Andy Spyra
محاذ کے قریب اسکول کی کلاس
جنگ کے دوران بھی لوگ اپنے روزمرہ معمولات انجام دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ جون 2014ء میں اسپیرا نے یہ تصویر مزارِ شریف کے ایک اسکول میں اُتاری۔ یہاں خاص طور پر نمایاں بات اس تصویر میں موجود افراد کے چہروں کے غیر واضح خطوط اور سامنے سے آنے والی تیز روشنی ہے:’’زیادہ تر غیر واضح تصاویر کے ذریعے مَیں جذباتی پہلوؤں کو نمایاں کرتا ہوں۔‘‘
تصویر: Andy Spyra
بازار کی رنگا رنگی
طالبان کی طرف سے کسی حملے کے خوف کے باوجود افغان شہری اپنی اَشیائے ضرورت خریدنے کے لیے بازار بھی جاتے ہیں۔ وہیں آنڈی اسپیرا نے مئی 2015ء میں یہ تصویر بنائی۔ وہ اپنی تصاویر میں براہِ راست جنگ کے مناظر دکھانے کی بجائے قریبی علاقوں میں چلتی پھرتی زندگی کو موضوع بناتے ہیں۔
تصویر: Andy Spyra
شام اور عراق کی سرحد پر
کُرد ملیشیا، النصرہ فرنٹ اور شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے درمیان ہونے والی شدید جھڑپوں کے باعث لوگوں کو شام کے کُرد علاقے چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔ آنڈی اسپیرا نے یہ تصویر عراقی شامی سرحد پر فِش خابور کے مقام پر بنائی، جہاں گھر بدر ہونے والے دو لاکھ بیس ہزار انسانوں نے پناہ لی ہے۔
تصویر: A. Spyra
مہاجر کیمپ
جو شخص بھی شام سے زندہ سلامت باہر نکلنے میں کامیاب ہو جاتا ہے، وہ سرحد پار کسی مہاجر کیمپ میں پناہ کی امید کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایچ سی آر کے مطابق روزانہ کم یا شدید جھڑپوں کے پیشِ نظر کبھی سینکڑوں تو کبھی ہزاروں انسان پناہ کی تلاش میں اِس غیر سرکاری سرحدی گزر گاہ پر پہنچتے ہیں۔ پھر ان کا اندراج ہوتا ہے اور انہیں مختلف کیمپوں میں بھیج دیا جاتا ہے۔ یہ کیمپ بھی جنگ ہی کا ایک چہرہ ہیں۔
تصویر: Andy Spyra
ایک تصویر محاذِ جنگ سے بھی
عام طور پر آنڈی اسپیرا جھڑپوں سے دور ہی رہتے ہیں اور زیادہ تر تصاویر لڑائی کے مرکز سے ہٹ کر واقع علاقوں میں اتارتے ہیں تاہم اس تصویر میں وہ شمالی شام میں راس العین کے مقام پر ہونے والی لڑائی کے بیچوں بیچ ہیں۔ یہاں ہر کوئی ایک دوسرے کے خلاف برسرِپیکار ہے: کُرد عربوں کے خلاف، ترک کُردوں کے خلاف، اسلام پسند مسیحیوں کے خلاف اور سب مل کر حکومت کے خلاف۔
تصویر: A. Spyra
عراق کی مسیحی اقلیت
جون 2011ء میں آنڈی اسپیرا نے عراق میں الحمدانیہ کے مقام پر ایک رسمِ تدفین میں شرکت کی۔ اس علاقے کی اٹھانوے فیصد آبادی مسیحی ہے اور شامی کیتھولک چرچ اور شامی آرتھوڈوکس چرچ سے تعلق رکھتی ہے۔ اگست 2014ء سے لے کر اکتوبر 2016ء تک یہ شہر ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے قبضے میں تھا۔ اس باعث یہاں کے متعدد عیسائی باشندوں کو راہِ فرار اختیار کرنا پڑی۔
تصویر: A. Spyra
نائیجیریا اور بوکو حرام
آنڈی اسپیرا کئی بار نائیجیریا بھی جا چکے ہیں۔ وہاں اُنہوں نے تقریباً 80 ایسی خواتین اور لڑکیوں کی تصاویر اُتاری ہیں، جو بوکوحرام کے قبضے میں رہیں۔ یہ باقاعدہ ان خواتین کو ایک جگہ بٹھا کر اُتاری گئی تصاویر ہیں، جیسی کہ اسپیرا عام طور پر نہیں اُتارتے۔ وہ انہیں مظلوم بنا کر پیش نہیں کرتے:’’ایک فوٹوگرافر ہونے کے باوجود میری بھی حدود ہیں۔ وہاں بہت کچھ ایسا ہوتا ہے، جو مَیں کیمرے میں قید نہیں کر سکتا۔‘‘