عراق سے امریکی فوج کے انخلاء کی باضابطہ تقریب
15 دسمبر 2011عراق جنگ کے عروج کے دنوں میں ملک میں قائم پانچ سو سے زائد امریکی اڈوں پر قریب ایک لاکھ 70 ہزار امریکی فوجی تعینات رہے تھے۔ تاہم رواں ماہ کے آخر تک امریکی فوجی دستوں کا انخلاء مکمل ہو جانے کے بعد ان کی تعداد چار ہزار رہ جائے گی۔
امریکہ نے سن 2003 میں اس وقت کے آمر صدام حسین کی زیر قیادت عراق میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے عراق پر حملہ کیا تھا۔ اس جنگ میں ہزارہا عراقی باشندے اور ساڑھے چار ہزار کے قریب امریکی فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔ یہ جنگ کئی لحاظ سے متنازعہ بھی رہی کیونکہ عراق میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار کبھی نہ مل سکے۔
فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے وزیر دفاع لیون پینیٹا نے کہا، ’’عراق میں ہمارا مشن ایک ایسی حکومت کا قیام تھا جو خود مختار اور آزاد ہو اور اپنا نظم و نسق اور سلامتی کی ذمہ داریاں سنبھال سکے۔ میرے خیال میں ہم وہاں اس مشن کے حصول میں کافی حد تک کامیاب رہے ہیں۔‘‘
ایک روز قبل صدر باراک اوباما نے وطن واپس لوٹنے والے فوجیوں کا استقبال کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکی فوج کی تاریخ کا ایک غیر معمولی باب بند ہو رہا ہے اور اب عراق کی تقدیر اس کے عوام کے ہاتھوں میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ عراق کی صورت حال کو مثالی تو قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن امریکی فوجی اپنے پیچھے ایک آزاد اور مستحکم ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا،
’’پورے خطے کے عوام عراق کو ایک ایسے ملک کے طور پر دیکھیں گے جو اپنی قسمت کا خود تعین کرے گا۔ ایک ایسا ملک جس میں مختلف مذہبی فرقوں، نسلوں سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنے اختلافات جمہوری انداز میں اور پرامن طریقے سے حل کریں گے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ امریکہ مختلف ملکوں کے ساتھ نئی شراکتیں قائم کر رہا ہے اور اپنی افواج کی واپسی کے بعد بھی عراق کے ساتھ مضبوط تعلق قائم رکھے گا۔ ’’عراقی عوام یہ بات جان لیں کہ وہ تنہا نہیں ہیں۔ وہ امریکہ کے مضبوط اور دیرپا شراکت دار ہیں۔‘‘
امریکی فوج نے عراق میں سلامتی کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے نو لاکھ مقامی فوجیوں کو تربیت دی ہے مگر اس فوج کی اہلیت پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ یہ خدشات بھی ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ امریکی فوج کے انخلاء کے بعد عراق کا ہمسایہ ملک ایران عراق کی صورت حال پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر سکتا ہے۔
رپورٹ: حماد کیانی
ادارت: امجد علی