عراق سے بیلاروس تک کا روٹ، مہاجرین یورپ کیسے پہنچ رہے ہیں؟
28 اکتوبر 2021
مشرق وسطیٰ میں عراق سے ان دنوں ہزاروں تارکین وطن غیر قانونی طور پر یورپی یونین میں داخلے کے لیے اسمگلروں کی مدد سے بیلاروس کے راستے یورپ پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس سفر میں موت کے خطرات تک کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔
اشتہار
یورپی یونین میں اپنے لیے بہتر اقتصادی مستقبل کی تلاش میں اب مختلف بحران زدہ اور ترقی پذیر ممالک سے مہاجرین اور تارکین مشرقی یورپ کے راستے کتنی بڑی تعداد میں یورپ پہنچنے لگے ہیں، اس کا اندازہ اس ایک بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ رواں ماہ کے شروع سے اب تک ایسے تارکین وطن بیلاروس سے پولینڈ کے ریاستی علاقے میں داخلے کی 11 ہزار 300 کوششیں کر چکے ہیں۔
سال رواں کے دوران ایسے مہاجرین کی بیلاروس سے پولینڈ میں غیر قانونی داخلے کی مجموعی طور پر 23 ہزار کوششیں رجسٹر کی جا چکی ہیں۔ پولینڈ میں ایسے تارکین وطن جرمنی کے ساتھ سرحد تک پہنچ جاتے ہیں۔ جرمنی کے 16 میں سے تین صوبوں کی سرحدیں پولینڈ سے ملتی ہیں۔ یہ وفاقی جرمن صوبے برانڈن برگ، میکلن برگ مغربی پومیرانیا اور سیکسنی ہیں۔ جرمن سرحدی پولیس کے مطابق اس سال اب تک پولینڈ سے تقریباﹰ چھ ہزار تارکین وطن غیر قانونی طور پر جرمنی میں داخل ہو چکے ہیں۔
ایسے تارکین وطن کا تعلق کن ممالک سے؟
عراق سے ایسے جن تارکین وطن کو بیلاروس کے راستے یورپ اسمگل کیا جاتا ہے، ان کی اکثریت کا تعلق تو عراق ہی سے ہوتا ہے مگر ان میں خانہ جنگی کے شکار ملک شام کے شہریوں کے علاوہ افریقہ میں کانگو اور کیمرون جیسے ممالک کے باشندے بھی شامل ہوتے ہیں۔
ان تارکین وطن کے لیے ان کے سفر کے آغاز کے مرکزی مقام تین ہیں۔ یہ تینوں عراقی کردستان کے علاقے کے شہر ہیں، جن کے نام اربیل، شیلادزی اور سلیمانیہ ہیں۔ اس سال اگست میں یورپی یونین کی طرف سے دباؤ کے نتیجے میں بغداد سے بیلاروس کے لیے براہ راست پروازیں بند کر دیے جانے کے بعد کئی ٹریول ایجنٹوں کے مطابق اب زیادہ تر تارکین وطن دبئی، ترکی، لبنان اور یوکرائن سے ہوتے ہوئے یورپی یونین میں داخلے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس نئی پیش رفت کا ایک ثبوت گزشتہ ہفتے جرمن وزارت خارجہ کے ترجمان کی طرف سے دیا جانے والا یہ بیان بھی ہے کہ حالیہ کچھ عرصے میں بیروت، دمشق اور عمان سے براہ راست منسک آنے والی پروازوں کی تعداد میں واضح اضافہ ہوا ہے۔
ویزوں کا انتطام اور سفری اخراجات
کئی مختلف رپورٹوں کے مطابق ایسے تارکین وطن کے مشرق وسطیٰ سے یورپی یونین تک سفر پر فی کس 12 ہزار سے 15 ہزار یورو (14 ہزار سے 17 ہزار امریکی ڈالر) تک لاگت آتی ہے۔ اس میں ان تارکین وطن کے لیے ویزوں کا انتظام، فضائی سفر کے اخراجات اور یورپ پہنچنے کے بعد یورپی یونین میں اسمگل کیے جانے کا معاوضہ بھی شامل ہوتا ہے۔
ترک حکومت ایران سے متصل مشرقی صوبے وان کی سرحد پر 63 کلومیٹر طویل دیوار تعمیر کر رہی ہے۔ اس کنکریٹ کی دیوار کا مقصد غیر قانونی مہاجرت اور اسمگلنگ کی روک تھام سمیت سکیورٹی کو یقینی بنانا ہے۔
تصویر: Mesut Varol/AA/picture alliance
کنکریٹ کی 63 کلومیٹر طویل دیوار
ترک حکومت ایران سے جڑی سرحد کے ساتھ مشرقی صوبے وان میں تریسٹھ کلومیٹر طویل کنکریٹ کی سرحدی دیوار تعمیر کر رہی ہے۔ اس دیوار کے تین کلومیٹر حصے کی تعمیر کا کام مکمل ہوچکا ہے۔
تصویر: Mesut Varol/AA/picture alliance
تین میٹر اونچی بارڈر وال
اس دیوار کی اونچائی تین میٹر اور چوڑائی دو عشاریہ اسّی میٹر ہے۔ سات ٹن وزنی کنکریٹ کے بلاکس تیار کرنے کے بعد بھاری مشینوں کے ذریعے نصب کیے جارہے ہیں۔
تصویر: Mesut Varol/AA/picture alliance
نگرانی کے لیے ’اسمارٹ واچ ٹاورز‘
ترک حکومت کے مطابق صوبہ وان کے سرحدی علاقوں میں نگہداشت کے لیے اب تک 76 ٹاورز نصب کیے گئے ہیں اور گہری کھائی بھی کھودی گئی ہے۔
تصویر: Mesut Varol/AA/picture alliance
بارڈر سکیورٹی میں اضافہ
انقرہ حکومت کے مطابق کنکریٹ کی دیوار کی تعمیر کا مقصد دہشت گردی، سامان کی اسمگلنگ اور غیر قانونی مہاجرت کے خلاف سکیورٹی سخت کرنا ہے۔
تصویر: Mesut Varol/AA/picture alliance
’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘
اس دیوار کی تعمیر کا ایک مقصد دہشت گردی کے خلاف لڑائی ہے۔ ترک میڈیا کے مطابق کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کے ایک ہزار سے زیادہ کارکن ایران کی سرحد پر کیمپوں میں سرگرم ہیں۔ اس دیوار کے ذریعے اس گروپ کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جائے گی۔
تصویر: Mesut Varol/AA/picture alliance
غیر قانونی مہاجرت کی روک تھام
یورپ پہنچنے کے لیے ہزاروں تارکین وطن ایران کے راستے سے غیر قانونی طریقے سے ترکی کی حدود میں داخل ہوتے ہیں۔ اس دیوار کی تعمیر کا مقصد افغانستان، پاکستان اور ایران سے ہونے والی انسانی اسمگلنگ کو روکنا ہے۔ ترک میڈیا کے مطابق گزشتہ چند ہفتوں کے دوران کم از کم پانچ سو افغان مہاجرین ترکی میں داخل ہوئے ہیں۔
تصویر: Mesut Varol/AA/picture alliance
منشیات اور سامان کی اسمگلنگ
اس سرحدی دیوار کی تعمیر کے ذریعے ترک حکومت منشیات اور سامان کی اسمگلنگ کو بھی روکنا چاہتی ہے۔ ایرانی وزارت خارجہ کے عہدیدار نے ترکی کے اس اقدام کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس دیوار کی تعمیر سے اسمگلنگ کو روکا جاسکے گا۔
تصویر: Mesut Varol/AA/picture alliance
سرحدی علاقے میں جنگلی حیات
ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ سرحدی دیوار کی تعمیر سے علاقے میں جنگلی حیات کی نقل و حرکت محدود ہوجائے گی۔ اس وجہ سے ماحولیاتی نظام پر طویل مدتی تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔
تصویر: Mesut Varol/AA/picture alliance
محفوظ سرحدیں
ترک حکام امید کر رہے ہیں کہ اس دیوار کی تکمیل کے ساتھ ہی ترک ایران سرحد کو مزید محفوظ بنانا ہے۔ اُن کو خدشہ ہے کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا مکمل ہونے کے بعد افغان مہاجرین بڑی تعداد میں ایران کے راستے ترکی میں داخل ہونے کی کوشش کریں گے۔
تصویر: Mesut Varol/AA/picture alliance
ترکی اور سرحدی دیواریں
یو این ایچ سی آر کے مطابق ترکی میں دنیا بھر میں مہاجرین کی سب سے بڑی تعداد موجود ہے۔ اس وقت ملک میں تقریبا تین عشاریہ چھ ملین رجسٹرڈ شامی پناہ گزین اور قریب تین لاکھ بیس ہزار دیگر قومیتوں سے تعلق رکھنے والے پناہ کے متلاشی افراد موجود ہیں۔
ایسے مسافروں کے لیے بیلاروس کے ویزے عراقی کردستان کے دارالحکومت اربیل میں واقع بیلاروس کا سفارت خانہ جاری کرتا ہے۔ عراقی دارالحکومت بغداد میں ایک ٹریول ایجنٹ نے اپنا اور اپنے کاروباری ادارے کا نام ظاہر نہ کیے جانے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بیلاروس کے سفارت خانے نے ویزوں کے اجراء کا کام کئی مختلف ٹریول ایجنسیوں کو سونپ رکھا ہے۔
اشتہار
ماضی میں بلیک لسٹ کی گئی ویزا سروس کمپنیاں
اس عراقی ٹریول ایجنٹ نے بتایا کہ پہلے وہ بھی اپنے گاہکوں کے لیے بیلاروس کے ویزوں کا انتظام کرتا تھا لیکن جب سے یہ کام بہت مشکوک ہوا ہے، اس نے اپنی اور اپنے بزنس کی ساکھ بچانے کے لیے ایسا کرنا بند کر دیا ہے۔ اس عراقی بزنس مین نے بتایا کہ عراق میں بیلاروس کے ویزے پانچ دن سے لے کر دو ہفتے تک کے عرصے میں مل جاتے ہیں۔
بیلاروس کے ایک آزاد نشریاتی ادارے Belsat.eu کے مطابق سابق سوویت یونین کی اس جمہوریہ میں 12 ٹریول ایجنسیوں کو درپردہ یہ اجازت دی جا چکی ہے کہ وہ غیر ملکیوں کے لیے بیلاروس کے ویزوں کا اہتمام کر سکتی ہیں۔ ان میں سے کچھ کمپنیاں ماضی میں بلیک لسٹ بھی کر دی گئی تھیں مگر پھر انہیں دوبارہ کام کرنے کی اجازت دے دی گئی۔
کس ملک کے کتنے شہری بیرون ملک آباد ہیں؟
اقوام متحدہ کے مطابق سن 2020 تک اپنے وطن سے مہاجرت اختیار کرنے والے انسانوں کی تعداد 272 ملین ہو چکی ہے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے سب سے زیادہ مہاجرت کس ملک کے شہریوں نے اختیار کی۔
تصویر: AFP
1۔ بھارت
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس کے آغاز تک قریب ایک کروڑ اسی لاکھ (18 ملین) بھارتی شہری اپنے ملک کی بجائے بیرون ملک مقیم تھے۔ زیادہ تر بھارتی تارکین وطن امریکا، کینیڈا، برطانیہ اور خلیجی ممالک میں ہیں۔ سن 2000 میں بیرون ملک مقیم بھارتی شہریوں کی تعداد آٹھ ملین تھی اور وہ عالمی سطح پر اس حوالے سے تیسرے نمبر پر تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Jebreili
2۔ میکسیکو
جنوبی امریکی ملک میکسیکو، قریب ایک کروڑ بیس لاکھ (12 ملین) بیرون ملک مقیم شہریوں کے ساتھ مہاجرت کی عالمی درجہ بندی میں دوسرے نمبر پر ہے۔ بیرون ملک مقیم میکسیکو کے شہریوں کی 90 فیصد تعداد امریکا میں مقیم ہے۔ سن 1990 میں 4.4 ملین اور سن 2000 میں 12.4 ملین میکسیکن باشندے بیرون ملک مقیم تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/E. Jaramillo Castro
3۔ چین
چینی شہریوں میں بھی ترک وطن کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے اور دسمبر 2019 تک ایک کروڑ دس لاکھ (11 ملین) سے زائد بیرون ملک مقیم شہریوں کے ساتھ مہاجرت کی عالمی درجہ بندی میں چین تیسرے نمبر پر ہے۔ چینی تارکین وطن کی بڑی تعداد امریکا، کینیڈا، جاپان اور آسٹریلیا میں آباد ہے۔ سن 1990 میں بیرون ملک مقیم چینی شہریوں کی تعداد 44 لاکھ تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. J. Brown
4۔ روس
چوتھے نمبر پر روس ہے جس کے ایک کروڑ (10.5 ملین) سے زائد شہری بھی اپنے وطن کی بجائے دوسرے ممالک میں آباد ہیں۔ روسی تارکین وطن جرمنی، امریکا اور یورپی ممالک کے علاوہ سابق سوویت ریاستوں میں مقیم ہیں۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق سن 2000 میں روس اس فہرست میں پہلے نمبر پر تھا اور اس وقت اس کے قریب گیارہ ملین شہری بیرون ملک مقیم تھے۔
تصویر: Zentrum Gleiche Kinder
5۔ شام
خانہ جنگی کے شکار ملک شام کے 80 لاکھ شہری دوسرے ممالک میں رہنے پر مجبور ہیں۔ شام سن 1990 میں اس عالمی درجہ بندی میں 26 ویں نمبر پر تھا تاہم سن 2011 میں شامی خانہ جنگی کے آغاز کے بعد لاکھوں شہری ہجرت پر مجبور ہوئے۔ شامی مہاجرین کی اکثریت ترکی، اردن اور لبنان جیسے پڑوسی ملکوں میں ہے تاہم جرمنی سمیت کئی دیگر یورپی ممالک میں بھی شامی شہریوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/L. Pitarakis
6۔ بنگلہ دیش
جنوبی ایشیائی ملک بنگلہ دیش اقوام متحدہ کی تیار کردہ اس فہرست میں چھٹے نمبر پر ہے۔ تازہ اعداد و شمار کے مطابق قریب 80 لاکھ بنگالی شہری دوسرے ممالک میں مقیم ہیں۔ بنگالی شہری بھارت اور پاکستان میں بھی موجود ہیں لیکن امریکا، برطانیہ اور خلیجی ممالک کا رخ کرنے والے بنگلہ دیشی شہریوں کی تعداد بھی بڑھی ہے۔
تصویر: dapd
7۔ پاکستان
70 لاکھ سے زائد بیرون ملک مقیم شہریوں کے ساتھ پاکستان اس فہرست میں ساتویں نمبر پر ہے۔ زیادہ تر پاکستانی خلیجی ممالک، برطانیہ اور امریکا میں موجود ہیں۔ سن 1990 میں 34 لاکھ جب کہ سن 2005 کے اختتام تک 39 لاکھ پاکستانی شہری بیرون ملک آباد تھے۔ تاہم سن 2007 کے بعد سے پاکستانی شہریوں میں دوسرے ممالک کا رخ کرنے کے رجحان میں نمایاں اضافہ ہوا۔
تصویر: Iftikhar Ali
8۔ یوکرائن
سوویت یونین کے خاتمے کے بعد نوے کی دہائی میں یوکرائن اس عالمی درجہ بندی میں پانچویں نمبر پر تھا۔ بعد ازاں یوکرائنی باشندوں کی مہاجرت کے رجحان میں بتدریج کمی ہو رہی تھی۔ تاہم روس اور یوکرائن کے مابین حالیہ کشیدگی کے بعد اس رجحان میں ایک مرتبہ پھر اضافہ ہوا ہے۔ اس برس کے آغاز تک چھ ملین یوکرائنی شہری بیرون ملک آباد تھے۔
تصویر: Picture alliance/dpa/Matytsin Valeriy
9۔ فلپائن
57 لاکھ سے زائد بیرون ملک مقیم شہریوں کے ساتھ فلپائن اس درجہ بندی میں نویں نمبر پر ہے۔ سن 2000 میں اپنے وطن سے باہر آباد فلپائنی شہریوں کی تعداد 30 لاکھ تھی۔ گزشتہ 17 برسوں کے دوران زیادہ تر فلپائنی باشندوں نے امریکا کا رخ کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ F. R. Malasig
10۔ افغانستان
افغانستان 50 لاکھ بیرون ملک مقیم شہریوں کے ساتھ اس عالمی درجہ بندی میں دسویں نمبر پر ہے۔ سن 1990 میں افغانستان اس فہرست میں ساتویں نمبر پر تھا اور اس کے 6.7 ملین شہری پاکستان، ایران اور دیگر ممالک میں مقیم تھے۔ تاہم سن 1995 تک 22 لاکھ سے زائد افغان شہری وطن واپس لوٹ گئے تھے۔
تصویر: Amrullah Safi
10 تصاویر1 | 10
یورپ پہنچانے کے خوش نما کاروباری وعدے
ترکی کے شہر استنبول میں پاسپورٹ اور ویزا سروس کا کام کرنے والی ایک کمپنی کا نام VIP Grub ہے۔ اس کمپنی کا دعویٰ ہے کہ وہ عام لوگوں کی روایتی طریقہ کار استعمال کرتے ہوئے یورپ پہنچنے میں مدد کرتی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یورپ کو تو دراصل غیر ملکی اور تارک وطن کارکنوں کی ضرورت ہے۔
اس ترک کمپنی نے اپنے اشتہارات میں جو تصاویر شائع کی ہیں، ان کے ساتھ یہ مختصر لیکن تارکین وطن کے لیے پرکشش تحریر بھی لکھی ہوئی ہوتی ہے: ''صرف یورپی فضائی کمپنیوں کے ذریعے، یورپ کو 1.2 ملین مہاجرین کی ضرورت۔ موقع سے فائدہ اٹھائیں اور ہمیں ادائیگی اپنی منزل پر پہنچنے کے بعد کریں۔‘‘
فضائی کمپنیاں کون کون سی؟
یورپی یونین میں رجسٹرڈ کئی کمپنیاں اس وقت بیلاروس کی قومی ایئر لائن بیلاویا کو اضافی ہوائی جہاز لیز پر دے رہی ہیں۔ یورپی یونین کے وزرائے خارجہ نے اس رجحان کے خلاف تنبیہ کی ہے اور متعلقہ اداروں پر پابندیاں عائد کر دینے کی دھمکی بھی دی ہے۔
مہاجرین کا بُحیرہ روم کے راستے یورپ کی جانب سفر دن بدن خطرناک ہوتا جا رہا ہے۔ سمندر میں ڈوبتے تارکین وطن کو بچانے والی امدادی تنظیمیں لیبیا پر اس حوالے سے معاونت کرنے میں ناکامی کا الزام عائد کرتی ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Medina
ڈرامائی واقعہ
اس تصویر میں ایک مہاجر خاتون اور ایک بچے کی لاشیں ڈوبنے والی کشتی کے شکستہ ڈھانچے کے درمیان تیر رہی ہیں۔ انٹرنیشنل آرگنائزیشن برائے مہاجرت کے اطالوی دفتر کے ترجمان فلاویو ڈی جیاکومو نے اسے ’ڈرامائی واقعہ‘ قرار دیا۔
تصویر: Reuters/J. Medina
صدمے کے زیر اثر
یہ مہاجر خاتون ڈوبنے سے بچ گئی تھی۔ ایک غیر سرکاری ہسپانوی این جی او’ پرو آکٹیوا اوپن آرمز‘ کے عملے نے اس خاتون کو بچانے کے لیے امدادی کارروائی کی اور پھر اپنے جہاز پر لے آئے۔ اس خاتون کو غالباﹰ لیبیا کے کوسٹ گارڈز نے سمندر ہی میں چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ واپس لیبیا نہیں جانا چاہتی تھی۔
تصویر: Reuters/J. Medina
کمپیوٹر اسکرین پر کشتی کی تلاش
جہاز کے کپتان مارک رائگ سرے اوس اور آپریشنل مینیجر انابل مونٹیس سمندر میں موجود کسی کشتی کے مقام کا تعین کر رہے ہیں۔ پرو آکٹیوا اوپن آرمز کے عملے کے ارکان کے خیال میں یہ مہاجرین کی کشتی بھی ہو سکتی ہے۔
تصویر: Reuters/J. Medina
تباہ حال کشتی سے لپٹی خاتون
امدادی کارکن ایستھر کامپس سمندر میں ایسے مہاجرین کو ایک بہت بڑی دور بین کے ذریعے تلاش کر رہی ہیں جنہیں مدد کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ گزشتہ ہفتے اس امدادی بحری جہاز کے عملے نے ایک تباہ حال کشتی سے لپٹی ہوئی ایک تارک وطن خاتون کو بچایا تھا۔ تاہم ایک اور خاتون اور بچے تک مدد پہنچنے میں دیر ہو گئی۔
تصویر: Reuters/J. Medina
لیبیا واپس نہیں جانا
جہاز کے عملے نے تصویر میں نظر آنے والی دو لاشوں کو پلاسٹک میں لپیٹ دیا ہے۔ پرو آکٹیوا کے بانی آسکر کامپس نے ایک ٹویٹ پیغام میں لکھا،’’ لیبیا کے کوسٹ گارڈز نے بتایا ہے کہ انہوں نے ایک سو اٹھاون مہاجرین سے بھری ایک کشتی کا راستہ روکا تھا۔ لیکن جو نہیں بتایا وہ یہ تھا کہ انہوں نے دو عورتوں اور ایک بچے کو کشتی ہی پر چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ لیبیا واپس نہیں جانا چاہتی تھیں اور وہ کشتی ڈوب گئی۔‘‘
تصویر: Reuters/J. Medina
اسپین کی طرف سفر
امدادی کارروائی کے بعد پروآکٹیوا کا ’آسترال‘ نامی جہاز اب اسپین کی ایک بندرگاہ کی جانب رواں دواں ہے۔
تصویر: Reuters/J. Medina
6 تصاویر1 | 6
بیلاروس پہنچنے والے اکثر تارکین وطن بیلاویا ایئر لائنز کی استنبول، دبئی یا دیگر شہروں سے براہ راست آنے والی مسافر پروازوں کے ذریعے منسک پہنچتے ہیں۔
یورپی یونین میں مسافر ہوائی جہاز کرائے پر دینے کے کاروبار کا مرکز آئرلینڈ ہے۔ دنیا میں جتنے بھی مسافر طیارے لیز پر لیے جاتے ہیں، ان میں سے نصف سے زائد کی لیزنگ آئرش کمپنیوں کے ذریعے ہوتی ہے۔ آئرلینڈ کے کچھ اداروں نے آج بھی Belavia کو کرائے پر ایسے ہوائی جہاز دے رکھے ہیں، جن کے ذریعے تارکین وطن کو یورپ کی دہلیز تک پہنچایا جاتا ہے۔
اس کے برعکس قطر ایئر ویز اور ٹرکش ایئر لائنز جیسی فضائی کمپنیاں اپنے منسک جانے والے مسافروں کی بہت سخت اسکریننگ کرتی ہیں۔ تاہم بغداد میں ایک ٹریول ایجنٹ کے مطابق، ''عراق سے ہر روز بہت سے مسافر ترکی اور دبئی جاتے ہیں۔ کسی بھی ایئر لائن کے لیے یہ بہت مشکل ہے کہ وہ یہ پتہ چلا سکے کہ ان مسافروں میں سے کون بالآخر بیلاروس جانا چاہتا ہے اور کون نہیں۔‘‘
م م / ع ب (روب مج، منیر غائدی)
پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کی اپیلیں: فیصلے کن کے حق میں؟
رواں برس کی پہلی ششماہی کے دوران جرمن حکام نے پندرہ ہزار سے زائد تارکین وطن کی اپیلوں پر فیصلے سنائے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے کس ملک کے کتنے پناہ گزینوں کی اپیلیں منظور کی گئیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Karmann
1۔ افغان مہاجرین
رواں برس کے پہلے چھ ماہ کے دوران 1647 افغان مہاجرین کی اپیلیوں پر فیصلے کیے گئے۔ ان میں سے بطور مہاجر تسلیم، ثانوی تحفظ کی فراہمی یا ملک بدری پر پابندی کے درجوں میں فیصلے کرتے ہوئے مجموعی طور پر 440 افغان شہریوں کو جرمنی میں قیام کی اجازت دی گئی۔ یوں افغان تارکین وطن کی کامیاب اپیلوں کی شرح قریب ستائیس فیصد رہی۔
تصویر: DW/M. Hassani
2۔ عراقی مہاجرین
بی اے ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق حکام نے گیارہ سو عراقی مہاجرین کی اپیلوں پر بھی فیصلے کیے اور ایک سو چودہ عراقیوں کو مختلف درجوں کے تحت جرمنی میں قیام کی اجازت ملی۔ یوں عراقی مہاجرین کی کامیاب اپیلوں کی شرح دس فیصد سے کچھ زیادہ رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K.Nietfeld
3۔ روسی تارکین وطن
روس سے تعلق رکھنے والے ایک ہزار سے زائد تارکین وطن کی اپیلیں بھی نمٹائی گئیں اور کامیاب اپیلوں کی شرح دس فیصد سے کچھ کم رہی۔ صرف تیس روسی شہریوں کو مہاجر تسلیم کیا گیا جب کہ مجموعی طور پر ایک سو چار روسی شہریوں کو جرمنی میں عارضی قیام کی اجازت ملی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
4۔ شامی مہاجرین
جرمنی میں شامی مہاجرین کی اکثریت کو عموما ابتدائی فیصلوں ہی میں پناہ دے دی جاتی ہے۔ رواں برس کی پہلی ششماہی کے دوران بی اے ایم ایف کے حکام نے پناہ کے مسترد شامی درخواست گزاروں کی قریب ایک ہزار درخواستوں پر فیصلے کیے جن میں سے قریب پیتنالیس فیصد منظور کر لی گئیں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/P. Giannokouris
5۔ سربیا کے تارکین وطن
مشرقی یورپی ملک سربیا سے تعلق رکھنے والے 933 تارکین وطن کی اپیلیوں پر فیصلے کیے گئے جن میں سے صرف پانچ منظور کی گئیں۔ یوں کامیاب اپیلوں کی شرح 0.5 فیصد رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Willnow
6۔ پاکستانی تارکین وطن
اسی عرصے کے دوران جرمن حکام نے 721 پاکستانی تارکین وطن کی اپیلوں پر بھی فیصلے کیے۔ ان میں سے چودہ منظور کی گئیں اور اپیلوں کی کامیابی کی شرح قریب دو فیصد رہی۔ آٹھ پاکستانیوں کو بطور مہاجر تسلیم کرتے ہوئے پناہ دی گئی جب کہ تین کو ’ثانوی تحفظ‘ فراہم کرتے ہوئے جرمنی میں قیام کی اجازت ملی۔
تصویر: DW/I. Aftab
7۔ مقدونیہ کے تارکین وطن
مشرقی یورپ ہی کے ملک مقدونیہ سے تعلق رکھنے والے 665 تارکین وطن کی اپیلوں پر بھی فیصلے سنائے گئے جن میں سے صرف 9 منظور کی گئیں۔
تصویر: DW/E. Milosevska
8۔ نائجرین تارکین وطن
افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے چھ سو تارکین وطن کی اپیلیں نمٹائی گئیں جن میں کامیاب درخواستوں کی شرح تیرہ فیصد رہی۔
تصویر: A.T. Schaefer
9۔ البانیا کے تارکین وطن
ایک اور یورپی ملک البانیا سے تعلق رکھنے والے 579 تارکین وطن کی ثانوی درخواستوں پر فیصلے کیے گئے جن میں سے صرف نو افراد کی درخواستیں منظور ہوئیں۔
تصویر: Getty Images/T. Lohnes
10۔ ایرانی تارکین وطن
جنوری سے جون کے اواخر تک 504 ایرانی شہریوں کی اپیلوں پر بھی فیصلے کیے گئے جن میں سے 52 کو بطور مہاجر تسلیم کیا گیا، چار ایرانی شہریوں کو ثانوی تحفظ دیا گیا جب کہ انیس کی ملک بدری پر پابندی عائد کرتے ہوئے جرمنی رہنے کی اجازت دی گئی۔ یوں ایرانی تارکین وطن کی کامیاب اپیلوں کی شرح پندرہ فیصد سے زائد رہی۔