1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
دہشت گردیمشرق وسطیٰ

عراق: شمالی علاقے میں اسلامک اسٹیٹ کے حملوں میں اضافہ  

6 دسمبر 2021

کرکوک کے قریب اسلامک اسٹیٹ سے وابستہ عسکریت پسندوں کے حملے کے نتیجے میں کرد پیشمرگہ فورسز کے کم از کم دو اہلکار ہلاک ہو گئے۔ اس علاقے میں حالیہ دنوں میں اسلامک اسٹیٹ کی سرگرمیوں میں کافی اضافہ دیکھا گیا ہے۔

Irak Peschmerga- Kämpfern im Schützengraben in Sinjar
تصویر: picture-alliance/abaca/H. Huseyin

عراق میں مقامی میڈیا کی خبروں کے مطابق نام نہاد اسلامی شدت پسند تنظیم "اسلامک اسٹیٹ" (داعش) کے جنگجوؤں نے پانچ دسمبر اتوار کے روز شمالی شہر کرکوک کے آس پاس سلسلہ وار کئی حملے کیے۔ کرد میڈیا کے مطابق اتوار کی شام کو قرہ سالم نامی گاؤں پر داعش کے عسکریت پسندوں کے ایک حملے میں کم از کم دو کرد پیشمرگہ فوجی ہلاک ہو گئے۔

شمالی عراق میں کرکوک پر مقامی کردوں کا کنٹرول ہے اور اس نیم خود مختار علاقے کا انتظام انہیں کے پاس ہے۔ پیشمرگہ کی وزارت نے ایک ویب سائٹ روداؤ سے بات چيت میں کہا، "پیشمرگہ فورسز کی صفوں میں سے بعض افراد ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔ دہشت گردوں کا تعاقب کیا گیا اور حالات قابو میں ہیں۔"

 پیشمرگہ کے ایک فوجی کرنل نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ داعش کے جنگجو رات کی تاریکی میں حملہ کر کے فرار ہونے کی حکمت عملی اپنا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا، "وہ زیادہ دیر تک وہاں رکنے سے گریز کرتے ہیں۔ مزید حملوں کو روکنے کے لیے علاقے میں مزید کمک بھیجی گئی ہے۔"

عسکریت پسندوں کا گاؤں کا محاصرہ

اس سے قبل اتوار کے روز ہی داعش سے وابستہ شدت پسندوں نے کرکوک صوبے کے ایک دیہات لوحیبان پر بھی ایک حملہ کیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق تقریباً دو درجن مسلح عسکریت پسندوں کے ایک گروپ نے گاؤں کا محاصرہ کر لیا تھا جس کے بعد مقامی رہائشی مبینہ طور پر گاؤں خالی کر کے چلے گئے۔

تصویر: picture-alliance/AP Photo/F. Dana

گاؤں کے ایک رہنما  نے نیوز ویب سائٹ کردش 24 کو بتایا، "صرف دس خاندان ہی گاؤں میں رہ گئے تھے اور ان سب نے بھی آج کوچ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔" روئٹرز نے سکیورٹی حکام کے حوالے سے خبر دی ہے کہ حالیہ دنوں میں اس گاؤں پر متعدد بار حملے ہوئے اور ایک طرح سے اب یہ گاؤں شدت پسندوں  کے ہاتھ میں جا چکا ہے۔

عراق میں داعش کا کیا ہوا؟

یہ تازہ حملے اس دور دراز علاقے میں ہوئے ہیں جس پر بغداد کی عراقی حکومت اور اربیل کی کرد علاقائی حکومت کے درمیان اختلاف پائے جاتے ہیں۔ دونوں ہی فریق اس پر اپنا دعوی کرتے ہیں۔ 

نام نہاد اسلامی شدت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ نے سن 2014 میں عراق اور شام کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیا تھا۔ لیکن بعد میں امریکا اور دیگر مغربی ممالک کی مدد سے علاقائی افواج نے  2017 تک اس کے بیشتر علاقے واپس لے لیے تھے۔

اس دوران اسلامک اسٹیٹ کے ساتھ وفاداری کا دعویٰ کرنے والے مختلف گروپ کئی دیگر ممالک میں بھی سامنے آئے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ اثر افغانستان اور مغربی افریقہ کے گروپوں کا ہے۔

عراق میں اس شدت پسندگروپ کے حملوں اور تشدد میں حالیہ اضافہ ایک ایسے وقت ہوا ہے جب ملک کی عوام میں بغداد حکومت کے خلاف عدم اطمینان  اور بے چینی پائی جاتی ہے۔ ملک کے حالیہ پارلیمانی انتخابات کے نتائج کے خلاف بھی لوگوں میں شدید غم و غصہ ہے جس کے خلاف پر تشدد مظاہرے ہوتے رہے ہیں۔

ص ز/   ع ب ( نیوز ایجنسیاں)

داعش کی رکن کے والد اپنی بیٹی، نواسے کی واپسی کے لیے پر امید

03:29

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں