عراق بین الاقوامی فٹبال میچوں کی میزبانی کے لیے ترس رہا ہے
27 مارچ 2022
عراق میں فٹبال کو سب سے مقبول کھیل تصور کیا جاتا ہے۔ اس سے معاشرے کے کئی حصے آپس میں جڑے رہتے ہیں۔ عراقی شائقین کئی دہائیوں کے بعد بین الاقوامی فٹبال کی واپسی کے لیے پرجوش تھے لیکن اب یہ امیدیں بھی دم توڑ چکی ہیں۔
اشتہار
سن انیس سو اسی کی دہائی میں ایران-عراق جنگ، پہلی خلیجی جنگ اور سن 2003 میں امریکی چڑھائی کی وجہ سے عراق اپنے ملک میں فٹبال کے بین الاقوامی مقابلوں کی میزبانی کرنے سے قاصر رہا ہے۔ فیفا نے سکیورٹی کے مسلسل خدشات کے باعث سن 2001 سے عراق کو اپنی ہوم گیمز اردن اور قطر جیسے تیسرے ممالک میں کھیلنے کے کہہ رکھا ہے۔
لیکن حالیہ سالوں میں عراق میں سکیورٹی صورتحال کچھ بہتر ہونے کے بعد ایک خوشی کی خبر تب سامنے آئی، جب عراق فٹبال ایسوسی ایشن نے اعلان کیا کہ فیفا نے 24 مارچ کو بغداد میں متحدہ عرب امارات کے خلاف ورلڈ کپ کوالیفائر میچ کھیلنے کے لیے رضامندی ظاہر کی ہے۔ تاہم میچ سے پانچ روز قبل یہ گیم سعودی شہر ریاض میں منتقل کرنے کا فیصلہ کر دیا گیا۔ کیونکہ 14 مارچ کو عراق کے شمالی شہر اربیل میں ایرانی پاسداران انقلاب نے میزائل داغے تھے۔ ایران کا دعویٰ تھا کہ وہ وہاں ایک اسرائیلی ''اسٹریٹجک سینٹر‘‘ کو نشانہ بنا رہے تھے۔
مختلف ترجیحات
مشرق وسطیٰ میں فٹبال کی سیاست کے ماہر جیمز ڈورسی کا کہنا ہے کہ فیفا اور عراق کی ترجیحات میں فرق ہے۔ ان کے بقول، ''عراق فٹبال کی وجوہات کی بنا پر گھر میں میچز کھیلنا چاہتا ہے لیکن جہاں میزائل داغے جارہے ہوں وہاں بین الاقوامی میچ کے انعقاد کے لیے فیفا شاید بہت زیادہ محتاط رہے گا۔‘‘
عراقی مداحوں نے فیفا کے اس فیصلے کے خلاف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر شکستہ دلی اور غصے کا اظہار کیا۔ مڈفیلڈر کھلاڑی احمد یاسین نے لکھا، ''پورے ملک میں بغیر کسی مسئلے کے فٹبال کھیلی جارہی ہے۔ اس پابندی کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ہمیں مزید کتنا انتظار کرنا ہوگا؟‘‘
اشتہار
ورلڈ کپ کوالیفائرز
فیفا ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائنگ مرحلے میں عراق نے ایران اور جنوبی کوریا سے کافی پیچھے رہتے ہوئے اپنے پہلی آٹھ گیمز میں صرف پانچ پوائنٹس حاصل کیے ہیں۔ فٹبال ماہرین کے مطابق اس مایوس کن پرفارمنس کی بڑی وجہ عراقی کھلاڑیوں کا اپنی سرزمین پر اپنے ہزاروں مداحوں کے سامنے میچز نہ کھیلنا ہے۔
میراڈونا کی فٹبال کے طلسمات اور اسکینڈلز سے بھری زندگی
دنیائے فٹبال اس کھیل کے جادوگر کھلاڑی ڈیاگو میراڈونا کی موت کا سوگ منا رہی ہے۔ ان کی زندگی تاریخی فتوحات اورتنازعات سے بھرپور تھی۔ ارجنٹائن کے میراڈونا فٹبال کھیل کی تاریخ میں ہمیشہ ایک عظیم کھلاڑی کے طور پر یاد رہیں گے۔
تصویر: Tareq Onu
ڈیاگو ارمانڈو میراڈونا
عالمی شہرت یافتہ فٹبال کھلاڑی ڈیاگو میراڈونا صرف 60 برس کی عمر میں حرکت قلب بند ہو جانے کے سبب انتقال کر گئے۔ ان کے آبائی ملک ارجنٹائن سمیت پوری دنیا میں فٹبال کھیل کے شائقین اس شہرہ آفاق کھلاڑی کے انتقال کا سوگ منا رہے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/P. Seeger
جب میراڈونا کھیلتا تھا، تو دنیا دیکھتی تھی
فٹبال کھیلنے کا سلسلہ ارجنٹائن جونئرز سے شروع ہوا۔ وہاں سے صلاحیت مند ڈیاگو بیونس آئرس میں بوکا جونیئرز کی ٹیم سے منسلک ہوگیا۔ میراڈونا کے والد کا یہ سب سے پسندیدہ کلب تھا۔ سن 1981 میں انہوں نے چیمپئن شپ کا ٹائٹل بھی جیت لیا۔ لیکن ڈیاگو کے ٹیلنٹ کے قد آگے ارجنٹائن کے کلب چھوٹے پڑ گئے اور اُس نے یورپ میں بارسلونا فٹ بال کلب میں شمولیت اختیار کر لی۔
تصویر: AP
میراڈونا اور اوڈو لیٹک کے درمیان تصادم
ہسپانوی علاقے کاتالونیا کے کلب نے سن 1982 میں میراڈونا کے لیے ریکارڈ 7.3 ملین ڈالر خرچ کیے، لیکن وہ بارسلونا میں کبھی خوش نہیں تھا۔ میراڈونا کی مسلسل ہیڈ کوچ اوڈو لیٹک سے جھڑپ رہی اور وہ وہاں زیادہ تر نائٹ لائف سے لطف اندوز ہوتا رہا۔ تین سال کے بعداس نے یہ کلب چھوڑ دیا۔ میراڈونا نے شاید اپنے کیریئر کا یہ سب سے بہترین فیصلہ کیا تھا۔
تصویر: imago/Werek
ڈیاگو میراڈونا، ناپولی کا ہیرو
جولائی 1984ء میں میراڈونا نے 10.2 ملین ڈالر کی ریکارڈ رقم کے ساتھ ناپولی فٹبال کلب میں شمولیت اختیار کرلی۔ یہ اطالوی کلب میراڈونا کی آمد سے پہلے کبھی چیمپئن نہیں رہا تھا۔ سن 1984 اور 1991ء کے درمیان میراڈونا نے کلب کو دو لیگز میں جیت سے ہمکنار کروایا اور 1989ء میں یو ای ایف اے کپ جیتنے میں مدد کی۔
تصویر: picture alliance / Mark Leech / Offside
میراڈونا کا جشن مناتے ناپولی کے پرستار
اطالوی شہر ناپولی میں میراڈونا ایک ہیرو کی حیثیت رکھتا تھا - لیکن وہ منشیات فروشوں کے چنگل میں پھنستا رہا۔ وہ کوکین کا نشہ کرتے کرتے مقامی مافیا کے قریب آگیا۔ میراڈونا نے پوری طرح سے زندگی کا لطف اٹھایا اور بعض اوقات قانون کو چیلنج بھی کیا، لیکن اس کی مقبولیت پھر بھی برقرار رہی۔
تصویر: Getty Images
ارجنٹائن عالمی چیمپئن بن گیا
سن 1986 کا ورلڈ کپ آج بھی میراڈونا کے جادوئی کھیل کے لیے مشہور ہے۔ وہ ارجنٹائن کو عالمی چیمپئن بناکر فٹ بال کی دنیا کا سپر اسٹار بن گیا۔ اس نے کوارٹر فائنل میں انگلینڈ کے خلاف اپنا بدنام زمانہ "ہینڈ آف گاڈ" گول کیا، لیکن اسی میچ میں ایک اور شاندار گول کرکے اپنی صلاحیت کا لوہا دوبارہ منوا لیا۔ یہ گول فٹبال کی تاریخ کے سب سے حیرت انگیز گولوں میں سے ایک خیال کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Fumagalli
میراڈونا کے لیے سخت ترین شکست
میراڈونا کے کیریئر کا ایک مشکل ترین لمحہ اٹلی میں مغربی جرمنی کے خلاف 1990ء کے ورلڈ کپ فائنل میں شکست تھا۔ گائڈو بُخوالڈ نے انہیں میدان سے باہر کردیا اور اس طرح میراڈونا کا دوسرا ورلڈ کپ جیتنے کا خواب چکناچور ہوگیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ناقابل یقین میراڈونا
فروری 1992ء: میراڈونا نے صحافیوں پر ایئر رائفل سے فائر کیے جس نے بیونس آئرس کے قریب ان کے ولا کو گھیر لیا تھا۔ اسے دو سال اور 10 ماہ جیل کی سزا سنائی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AFP
میراڈونا، ایک مداح
میراڈونا نے اپنا آخری میچ 25 اکتوبر 1997ء کو بوکا جونیئرز کے لیے کھیلا تھا۔ وہ شروع سے ہی اس کلب کا پرستار تھا۔ اس سے پہلے ہی وہ 15 ماہ تک ڈوپنگ کے الزام میں معطل رہا تھا۔ مزید معطلی سے بچنے کے لیے میراڈونا نے 30 اکتوبر کو ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا۔ 37 سال کی عمر میں ان کے کیرئر میں موجود اسکینڈلز کے انبار نے ان کی صلاحیت کو شکست دے دی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/N. Pisarenko
میراڈونا، فٹبال کھلاڑی سے کوچ بن گئے
اکتوبر 2008ء میں کوچنگ کا کم تجربہ ہونے کے باوجود میراڈونا کو ارجنٹائن کا ہیڈ کوچ نامزد کیا گیا۔ 2010ء کے ورلڈ کپ کے کوارٹر فائنل میں اس کی ٹیم کو جرمنی سے 4-0 سے شکست کا سامنا کرنا پڑا اور بالآخر اسے باہر کردیا گیا۔ اس نے میکسیکو اور دیگر جگہوں پر کلبوں کی کوچنگ کی لیکن جو کامیابی اسے کھلاڑی کی حیثیت سے ملی وہ کوچنگ میں نہ مل سکی۔
تصویر: DANIEL GARCIA/AFP/Getty Images
ڈیاگو میراڈونا اور سیاست
فٹبال سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی میراڈونا شہ سرخیوں کی زینت بنا رہا۔ جیسے کہ جب وہ کیوبا کے حکمران فیڈل کاسترو سے ملا۔ میراڈونا کے منشیات اور الکحل کے زیادہ استعمال کی باقاعدگی سے اطلاعات اخباروں میں شائع ہوتی رہیں۔ میراڈونا کو جہاں مدعو کیا گیا، وہ وہاں مہمان بن جاتا۔
تصویر: AP
ڈیاگو میراڈونا نے بھرپور زندگی جی
میراڈونا کا طرز زندگی ان کی صحت کے مسائل کا سبب بنا، اس میں ان کا موٹاپا بھی شامل ہے۔ ایک سے زیادہ مرتبہ انہوں نے موت کو چکمہ دیا، لیکن پھر 25 نومبر 2020 کے روز آخرکار موت جیت گئی۔ میراڈونا کو بیونس آئرس کے مضافات میں اپنے گھر پر دل کا دورہ پڑا اور وہ چل بسے۔
تصویر: picture-alliance/Newscom/D. Klein
12 تصاویر1 | 12
واضح رہے عراق کی ٹیم آخری مرتبہ سن 1986 میں میکسیکو میں کھیلے گئے عالمی کپ میں کھیلنے کے لیے کوالیفائی کرسکی تھی۔
عراق کے لیے ایک نئی شروعات
عراق میں فٹبال شائقین، کھلاڑی اور حکام کافی عرصے سے اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ ملک میں سکیورٹی صورتحال کافی بہتر ہوچکی ہے۔ ایک عراقی کھلاڑی نے اپنی شناخت نہ ظاہر کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمیں ماضی کی صورتحال کا اچھی طرح پتہ ہے مگر فیفا موجودہ حالات کے بجائے ماضی کے بنا پر یہ فیصلے کر رہا ہے۔‘‘
انہوں نے اربیل حملے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ رواں برس جنوری میں ابوظہبی پر بھی میزائل داغے گئے تھے، جس میں تین افراد ہلاک ہوگئے تھے، لیکن متحدہ عرب امارات کی ٹیم ابھی تک اپنے گھر پر میچ کھیل رہی ہے۔ ''لہٰذا اس بارے میں بحث کا کوئی فائدہ نہیں۔‘‘
ٹانگوں کے بغیر فٹبال کھیلنے والا مصری نوجوان
03:33
حال ہی میں عراق میں چند دوستانہ میچ کھیلے گئے تھے، جیسے کہ زمبیا نے اٹھارہ مارچ کو بغداد میں ایک فرینڈلی میچ کھیلا تھا۔ عراق نے زمبیا کو ایک کے مقابلے تین گول سے شکست دی تھی۔ لیکن فیفا کے فیصلے سے لگتا ہے کہ عراق میں فٹبال کے بین الاقوامی میچوں کی بھرپور طریقے سے واپسی میں ابھی کافی وقت درکار ہے۔
جان ڈورڈن / ع آ / ا ا
فٹبال عالمی کپ کی تاریخ کی مختصر جھلکیاں
روس میں چودہ جون سے اکیسویں عالمی کپ فٹبال کا آغاز ہونے جارہا ہے۔ ارجنٹائن کے ایک کارٹونسٹ گیرمان آکچیل نے چراسی سالہ عالمی مقابلوں کے چند اہم و دلچسپ لمحات کو مزاحیہ تحریروں کے ساتھ کارٹون کی صورت میں پیش کیا ہے۔
تصویر: Aczel / Edel Books
ایک دفعہ کا ذکر ہے۔۔۔
پہلا عالمی کپ 1930ء میں یوروگائے میں منعقد ہوا تھا۔ زیادہ تر ٹیموں کا تعلق شمالی، وسطی اور جنوبی امریکا سے تھا، جبکہ یورپ سے صرف چار ٹیموں نے بحری جہازوں کے ذریعے طویل سفر کر کے عالمی مقابلے میں شرکت کی۔ فائنل میں میزبان ٹیم نے روایتی حریف ارجنٹائن کو چار کے مقابلے میں دو گول سے شکست دے کر عالمی کپ اپنے نام کیا تھا۔
تصویر: Aczel/Edel Books
سوئس شہر ’بیرن‘ میں معجزہ
دوسری عالمی جنگ کے بعد 1954ء میں پہلا فٹبال عالمی کپ سوئٹزرلینڈ میں منعقد ہوا۔ اس بار ہنگری کی ٹیم نے سپر سٹار کھلاڑی فرینک پسکاس کے ساتھ عمدہ کھیل کا مظاہرہ کیا۔ راؤنڈ میچز میں تو جرمن ٹیم کو ہنگری کے خلاف شکست سے دوچار ہونا پڑا لیکن فائنل میں جرمنی نے دو کے مقابلے تین گول سے ہنگری کو شکست دے کر پہلی مرتبہ عالمی چیمپئن کا اعزاز حاصل کرلیا۔
تصویر: Aczel/Edel Books
برطانیہ کا ابھی تک کا واحد اعزاز
1966ء میں میزبان ملک برطانیہ، فٹبال کی تاریخ میں پہلی مرتبہ عالمی کپ جیتنے میں کامیاب ہوا۔ فائنل کے سنسنی خیز مقابلے میں برطانیہ نے جرمنی کو دو کے مقابلے چار گول سے شکست دی تھی۔ اس میچ کے حوالے سے شائقین فٹبال آج بھی مشہور ’ویمبلی گول‘ کا ذکر کرتے ہیں۔ تصویر میں برطانوی کھلاڑی بابی مور دیگر کھلاڑیوں کے ہمراہ فاتح ٹرافی کے ساتھ دیکھے جاسکتے ہیں۔
تصویر: Aczel/Edel Books
’پیلے‘ کا سامبا رقص
1970ء میں برازیل تیسری مرتبہ عالمی چیمپئن بن گیا۔ بیسویں صدی کے بہترین کھلاڑی پیلے نے ساتھی کھلاڑیوں کے ہمراہ اٹلی کو فائنل میں شکست دی۔ برازیل کی ٹیم عالمی ٹورنامنٹ کے چھ میچوں میں انیس گول کرنے میں کامیاب رہی۔ یہ پہلا موقع تھا جب تمام کھلاڑی ٹیلی وژن کی رنگین سکرین پر نمودار ہوئے تھے۔
تصویر: Aczel/Edel Books
جرمنی میں عالمی کپ کی میزبانی
1974ء میں مشرقی و مغربی جرمنی کی فٹبال ٹیموں کے درمیان مقابلہ اس عالمی کپ کی خاص یادگاروں میں سرفہرست ہے۔ میونخ کے اولمپک سٹیڈیم میں میزبان ٹیم ہالینڈ کے خلاف فائنل میں فاتح ٹیم رہی۔ فاتح گول کرنے والے جرمن کھلاڑی گیئرڈ میولر کو ’بومبر دیر ناشیون‘ یعنی ’قومی بمبار‘ کے نام سے آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔
تصویر: Aczel/Edel Books
میراڈونا کے ناقابل یقین گول
1986ء کے عالمی کپ کو ارجنٹائن کے سپرسٹار کھلاڑی دئیگو میراڈونا سے منسلک کیا جاتا ہے۔ میراڈونا کے غیر معمولی کھیل کی وجہ سے ارجنٹائن دوسری بار عالمی چیمپئن بن گیا۔ میراڈونا نہ صرف خوبصورت بلکہ نا ممکن گول کرکے اپنے شائقین کو حیران کرتے تھے۔
تصویر: Aczel/Edel Books
فٹبال کے میدان پر حملے کا انوکھا انداز
1990ء میں اٹلی میں جرمنی نے تیسری مرتبہ عالمی چیمپئن کا اعزاز اپنے نام کرلیا۔ فائنل میں جرمنی نے ارجنٹائن کو شکست دی تھی۔ تاہم اس عالمی کپ کی یادگار بنا کوارٹر فائنل میں ہالینڈ کے قومی کھلاڑی فرانک ریکارڈ کا جرمن کھلاڑی روڈی فؤلر پر تھوکنا۔ نتیجتاﹰ ریفری نے دونوں کھلاڑیوں کو میدان سے باہر نکالنے کا فیصلہ کردیا۔
تصویر: Aczel/Edel Books
زیڈان کی ٹکر
2006ء میں جرمنی نے ایک مرتبہ پھر عالمی کپ کی میزبانی کے فرائض انجام دیے۔ اٹلی اور فرانس کے درمیان سنسنی خیز فائنل کا فیصلہ پیلنٹی سٹروک کے ذریعہ کیا گیا۔ فرانسیسی کپتان زیڈان کا اطالوی کھلاڑی ماتا رازی کو غصہ میں سر سے ٹکر مارنا ٹورنامنٹ کا یادگار لمحہ رہا۔ جس کے بعد زیڈان کے شاندار کیریئر کا اختتام ایک افسوسناک انداز میں پیش آیا۔
تصویر: Aczel/Edel Books
آخرکار قسمت کی دیوی اسپین پر بھی مہربان
عالمی کپ 2010ء اس بار قسمت کی دیوی ہسپانوی ٹیم پر مہربان ہوگئی۔ اسپین نے اپنے مخصوص کھیل کے انداز’ ٹیکی ٹاکا‘ سے جنوبی افریقہ کو شکست دی۔ اس جیت کا سپین کی بہترین فتوحات میں شمار ہوتا ہے۔
تصویر: Aczel/Edel Books
لیونل میسی، فٹبال کے بادشاہ
برازیل میں منعقدہ عالمی کپ 2014ء کے فائنل تک ارجنٹائن کو پہنچانے کا سہرا فٹبال کے بادشاہ کہلانے والے لیونل میسی کے سر جاتا ہے۔ تاہم فائنل میں جرمنی نے کانٹے دار مقابلے میں ایک گول سے فتح حاصل کرلی۔
تصویر: Aczel / Edel Books
جرمنی، چوتھی مرتبہ عالمی چیمپئن
ریو ڈی جینیرو کے ماراکانا سٹیڈیم میں پچھتر ہزار شائقین کی موجودگی میں کھیلے جانے والے فائنل میں جرمن ٹیم امریکی براعظم پر عالمی کپ جیتنے والی پہلی یورپی ٹیم بن گئی۔ اس تصویر میں جرمنی کی فاتح ٹیم دیکھی جاسکتی ہے۔
تصویر: Aczel / Edel Books
متنازعہ میزبان ملک
چودہ جون سے شروع ہونے والے عالمی کپ کی میزبانی روس کررہا ہے۔ تاہم عالمی مقابلے سے قبل کرپشن اور ڈوپنگ جیسی خبروں نے روس کو متنازعہ بنادیا ہے۔ عالمی کپ 2018ء کا افتتاحی میچ سعودی عرب اور روس کے درمیان کھیلا جائے گا۔
تصویر: Aczel / Edel Books
فٹبال ورلڈ کپ کی تاریخ، کارٹون کی صورت میں
’ورلڈ کپ 1930ء سے 2018ء‘ تک کے عنوان سے شائع ہونے والی کتاب میں فٹبال ورلڈ کپ کی چوراسی سالہ تاریخ کو کارٹون کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ مزید ان دلچسپ لمحات کی کہانی کو مزاحیہ تحریروں میں بیان کیا گیا ہے۔ کتاب کے سرِورق پر مشہور کھلاڑیوں کے کارٹون بنائے گئے ہیں، جن میں رونالڈو، میسی، نوئر اور نیمار شامل ہیں۔
تصویر: Aczel / Edel Books
کارٹونسٹ گیرمان آکچیل
ارجنٹائن سے تعلق رکھنے والے کارٹونسٹ نے اپنے فن کا آغاز آبائی شہر بیونس آئرس سے کیا۔ جہاں وہ مختلف کھیل کے ایک جریدے ’ایل گرافیکو‘ سے منسلک رہے۔ چھبیس سال کی عمر میں وہ جرمنی منتقل ہوگئے۔ اب وہ فٹبال کے معروف انگریزی جریدے ’فور فور ٹو‘ کے لیے کارٹون بناتے ہیں۔