1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق: لڑکیوں کی شادی کی قانونی عمر نو سال کرنے کی تجویز

9 اگست 2024

عراق کی پارلیمنٹ میں ایک مجوزہ بل پر بڑے پیمانے پر غم وغصے اور تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے۔ اس میں لڑکیوں کی شادی کی قانونی عمر کو کم کرکے نوسال کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے یونیسیف کے مطابق عراق میں 28 فیصد لڑکیوں کی شادی 18 سال کی عمر سے پہلے ہی کر دی جاتی ہے
اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے یونیسیف کے مطابق عراق میں 28 فیصد لڑکیوں کی شادی 18 سال کی عمر سے پہلے ہی کر دی جاتی ہےتصویر: picture-alliance/dpa/ITAR-TASS/Y. Smityuk

عراق کی وزارت انصاف کی جانب سے متعارف کرائے گئے متنازعہ قانون کا مقصد ملک کے ذاتی حیثیت کے قانون میں ترمیم کرنا ہے، جس میں فی الحال شادی کی کم از کم عمر 18 سال مقرر ہے۔

یہ بل شہریوں کو خاندانی معاملات پر فیصلہ کرنے کے لیے مذہبی حکام یا سول عدلیہ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کی اجازت دے گا۔ ناقدین کو خدشہ ہے کہ یہ وراثت، طلاق اور بچوں کی تحویل کے معاملات میں حقوق کو م‍حدود کردینے کا باعث بنے گا۔

نئے قانون میں کیا ہے؟

اگر یہ بل منظور ہو جاتا ہے تو یہ 9 سال کی لڑکیوں اور 15 سال سے کم عمر کے لڑکوں کو شادی کرنے کی اجازت دے گا، جس سے بچوں کی شادی اور استحصال میں اضافے کا خدشہ پیدا ہو گا۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ رجعت پسندانہ اقدام خواتین کے حقوق اور صنفی مساوات کے فروغ میں کئی دہائیوں کی پیش رفت کو نقصان پہنچائے گا۔

نو سال کی عمر میں طلاق تو شادی کب؟

عراق میں لڑکیوں کی تجارت اسلام ہر گز نہیں، کیری

انسانی حقوق کی تنظیموں، خواتین کے گروپوں اور سول سوسائٹی کے کارکنوں نے اس بل کی شدید مخالفت کی ہے۔ انہوں نے نوجوان لڑکیوں کی تعلیم، صحت اور بہبود کے لیے سنگین نتائج کا انتباہ دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ قانون منظورہو جانے سے بچپن کی شادیوں کی شرح میں اضافہ، جلد حمل، اور گھریلو تشدد کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔

اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے یونیسیف کے مطابق عراق میں 28 فیصد لڑکیوں کی شادی 18 سال کی عمر سے پہلے ہی کر دی جاتی ہے۔

صنفی مساوات کا ہدف 2030 تک حاصل کرنا ممکن نہیں، اقوام متحدہ

داعش کی جنسی زیادتیوں سے پیدا ہونے والے بچے کہاں جائیں؟

ہیومن رائٹس واچ کی محقق سارہ سنبر نے کہا، "اس قانون کو پاس کرنے سے یہ ظاہر ہو گا کہ یہ ملک پیچھے کی طرف بڑھ رہا ہے، آگے کی طرف نہیں۔"

اگر یہ بل منظور ہو جاتا ہے تو بچوں کی شادی اور استحصال میں اضافے کا خدشہ پیدا ہو گاتصویر: Reuters/A. Al-Marjani

بل کی مخالفت

عراق ویمنز نیٹ ورک کی عمل کباشی نے بھی سخت مخالفت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ترمیم پہلے سے ہی ایک قدامت پسند معاشرے میں "خاندانی مسائل پر مردوں کے غلبے کے لیے بہت بڑا راستہ فراہم کرتی ہے"۔

جولائی کے آخر میں، پارلیمنٹ نے مجوزہ تبدیلیوں کو واپس لے لیا تھا جب بہت سے قانون سازوں نے اعتراض کیا تھا۔ لیکن ایوان میں اکثریتی شیعہ اراکین کی حمایت حاصل کرنے کے بعد 4 اگست کو اسے دوبارہ پیش کیا گیا ہے۔

مجوزہ بل 1959 کے قانون میں تبدیلی ہے ۔ عراقی بادشاہت کے خاتمے کے بعد نافذ ہونے والے اس قانون نے عائلی قوانین کا اختیار مذہبی شخصیات سے ریاستی عدلیہ کو منتقل کر دیا تھا۔ نئے بل میں بنیادی طور پر شیعہ اور سنی مسالک کے مذہبی قوانین کو لاگو کرنے کا اختیار دوبارہ متعارف کرایا جائے گا، لیکن عراق کی متنوع آبادی کے اندر دیگر مذہبی یا فرقہ وارانہ برادریوں کا ذکر اس میں نہیں کیا گیا ہے۔

یہ ابھی واضح نہیں ہے کہ آیا قانون کو تبدیل کرنے کی یہ کوشش کامیاب ہوگی کیونکہ پہلے بھی ایسی کئی کوششیں ناکام ہو چکی ہیںتصویر: Christophe Petit Tesson/dpa/picture-alliance

بل کے حامیوں کی دلیل

بل کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ اس کا مقصد اسلامی قانون کو معیاری بنانا اور نوجوان لڑکیوں کو "غیر اخلاقی تعلقات" سے بچانا ہے۔ تاہم، مخالفین کا کہنا ہے کہ یہ استدلال غلط ہے اور بچپن کی شادی کے تلخ حقائق کو نظر انداز کرتے ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ کی سارہ سنبر کا کہنا تھا کہ مذہبی حکام کو شادی کا اختیار دینے سے، یہ ترمیم "عراقی قانون کے تحت مساوات کے اصول کو کمزور کر دے گی۔"

انہوں نے کہا، نو سال سے کم عمر کی لڑکیوں کی شادی کو بھی قانونی حیثیت دے سکتا ہے، جو ان گنت لڑکیوں کے مستقبل اور صحت کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔""

انہوں نے کہا، "بچیاں کھیل کے میدان اور اسکول میں اچھی لگتی ہیں، شادی کے لباس میں نہیں۔"

بہر حال یہ ابھی واضح نہیں ہے کہ آیا قانون کو تبدیل کرنے کی یہ کوشش کامیاب ہوگی کیونکہ پہلے بھی ایسی کئی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔

ج ا ⁄ ص ز (اے ایف پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں