جرمن حکومت کا کہنا ہے کہ عراق میں جہادی گروپ اسلامک اسٹیٹ کی شکست کے بعد سلامتی کی صورت حال اس حد تک بہتر ہو چکی ہے کہ اب یورپ آنے والے عراقی مہاجرین کو اپنے وطن واپس جانے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔
اشتہار
جرمنی میں ترقیاتی امور کے وزیر گیرڈ مولر نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ عراق میں جہادی گروپ اسلامک اسٹیٹ کے خلاف حاصل ہونے والی حالیہ فتوحات کے بعد جرمن حکومت نے وہاں تباہ شدہ دیہاتوں اور شہروں کی تعمیر نو کا عزم کر رکھا ہے۔ تاہم جرمن وزیر کے مطابق ایسا اس لیے کیا جائے گا تاکہ جرمنی آنے والے عراقی مہاجرین کی وطن واپسی کو ممکن بنایا جا سکے۔
مولر نے اپنے بیان میں مزید کہا،’’ عراق میں سکیورٹی کی صورتحال پہلے ہی اتنی بہتر ہو چکی ہے کہ اب ملک میں داخلی طور پر نقل مکانی کر جانے والے افراد بھی اپنے علاقوں میں واپس آسکتے ہیں۔‘‘
گیرڈ مولر کا کہنا ہے کہ وہ عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی سے بھی ملاقات کریں گے تاکہ عراقی پناہ گزینوں کی جرمنی سے اپنے ملک واپسی کے تمام تر امکانات کے حوالے سے دونوں ممالک میں قریب تر تعاون کو فروغ دیا جا سکے۔ جرمنی میں عراقی مہاجرین کی وطن واپسی کے حوالے سے برلن حکومت کی توقعات پر بھی العبادی کے ساتھ ملاقات میں بات کی جائے گی۔
جرمن وزیر ترقیاتی امور گیرڈ مولر کا یہ بھی کہنا تھا کہ عراق کی تعمیر نو اور بحالی کے حوالے سے تحریک عراقی حکومت کی جانب سے آنی چاہیے۔
خیال رہے کہ عراقی شہر موصل اور اس کے نواحی علاقوں پر داعش کے جنگجوؤں نے 2014ء میں قبضہ کر لیا تھا۔ یہ قبضہ ان جہادیوں کی اس وسیع تر عسکری پیش رفت کے دوران ہوا تھا، جس کے نقطہ عروج پر داعش کو عراق اور ہمسایہ جنگ زدہ ملک شام کے وسیع تر علاقوں پر کنٹرول حاصل ہو گیا تھا۔
گزشتہ برس جولائی میں داعش کے شدت پسندوں کو عراق کے اس دوسرے سب سے بڑے شہر سے حتمی طور پر پسپائی اختیار کرنا پڑ گئی تھی۔ یوں یہ شہر دوبارہ عراقی حکومت کے کنٹرول میں تو آ گیا تھا لیکن تب تک موصل کے کئی علاقے مکمل طور پر تباہ ہو چکے تھے۔
اس جنگ کے نتیجے میں لاکھوں عراقی باشندے یا تو داخلی طور پر بے گھر ہوئے تھے یا پھر ملک چھوڑ کر یورپ اور دیگر ممالک کی طرف فرار ہو گئے تھے۔
ہنگری میں جرمنی جانے کے منتظر مہاجرین
ہنگری کے دارالحکومت بوڈاپیسٹ کے ریلوے اسٹیشن پر پڑے ہوئے مہاجرین دو روز تک بے خبر رہے کہ آگے اُن پر کیا بیتے گی۔ ٹکٹ اُن کے پاس تھے لیکن سفر کی اجازت نہیں مل رہی تھی۔ جب اجازت ملی تو انہیں ایک کیمپ میں پہنچا دیا گیا۔
تصویر: DW/L. Scholtyssyk
کھلے آسمان کے نیچے
بہت سے مہاجرین نے ایسٹرن ریلوے اسٹیشن کے سامنے واقع جگہ پر ہی رات کو ڈیرے لگا لیے۔ ان لمحات میں اُنہیں بالکل نہیں پتہ تھا کہ آگے کیا ہو گا، کہیں جانے کی اجازت ملے گی بھی یا نہیں اور ملے گی بھی تو کب۔
تصویر: DW/L. Scholtyssyk
’عارضی قیام کی جگہ‘
پولیس نے اس جگہ کو ’ٹرانزٹ زون‘ قرار دے دیا۔ یہ اور بات کہ ان حالات کو کسی صورت ٹرانزٹ کا نام نہیں دیا جا سکتا تھا۔ مہاجرین کو حکام کی طرف سے کافی دیر تک کسی قسم کی معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔
تصویر: DW/L. Scholtyssyk
آگے سفر کا انتظار
کئی ایک مہاجرین کو آگے مغربی یورپ کی جانب سفر کا انتظار کرتے کرتے دو روز ہو گئے ہیں۔ اُن کی الجھن بڑھتی جا رہی ہے۔
تصویر: DW/L. Scholtyssyk
پولیس کی کارروائی کے خلاف احتجاج
قبل از دوپہر ریلوے اسٹیشن کے سامنے والی جگہ پر حالات قابو سے باہر ہوتے دکھائی دینے لگے۔ مہاجرین نے بلند آواز میں ہنگری کی پولیس کی کارروائیوں کے خلاف احتجاج کرنا شروع کر دیا۔
تصویر: DW/L. Scholtyssyk
ریلوے اسٹیشن پر تالے پڑے رہے
صورتِ حال پر قابو پانے اور مہاجرین کو ریلوے اسٹیشن سے باہر ہی رکھنے کے لیے مزید پولیس بھیجی جاتی رہی اور پولیس کی نفری میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا گیا۔
تصویر: DW/L. Scholtyssyk
امید کی کرن
پھر اچانک مہاجرین کو ریلوے پلیٹ فارم تک جانے کی اجازت دے دی گئی۔ مہاجرین کو بتایا گیا کہ ایک ریل گاڑی اُنہیں آگے مغربی یورپ تک لے کر جائے گی۔
تصویر: DW/L. Scholtyssyk
ریل پر چڑھنے کے لیے دھکم پیل
سینکڑوں مہاجرین نے ریلوے اسٹیشن کے مرکزی ہال پر ایک طرح سے دھاوا بول دیا۔ ہر ایک کی کوشش تھی کہ کسی نہ کسی طرح مغرب کو جانے والی ریل گاڑی پر سوار ہو جائے۔
تصویر: DW/L. Scholtyssyk
اور بالآخر سفر شروع ہوا
ریل پر جگہ پانے والے تمام مہاجرین کا خیال یہ تھا کہ اب بالآخر اُنہیں ہنگری سے نکلنے اور اپنی پسند کے کسی یورپی ملک میں جانے کا موقع مل رہا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کی خواہش تھی کہ وہ جرمنی جائیں۔
تصویر: DW/L. Scholtyssyk
جو پیچھے رہ گئے
ریل گاڑی پر سبھی مہاجرین سوار نہ ہو سکے۔ جو بوڈاپیسٹ کے ریلوے اسٹیشن پر ہی پڑے رہ گئے، اُن کی تعداد ایک ہزار سے بھی زیادہ تھی۔ ان لوگوں کو بہت بعد میں پتہ چلا کہ اگر وہ واقعی ریل پر چڑھنے میں کامیاب ہو جاتے تو کہاں پہنچ چکے ہوتے۔
تصویر: DW/L. Scholtyssyk
ریل گاڑی کہیں اور جا پہنچی
جمعرات کو قبل از دوپہر دراصل ہوا یہ تھا کہ بوڈاپیسٹ کے ریلوے اسٹیشن سے روانہ ہونے والی ریل گاڑی کو شہر سے نکلنے کے تھوڑی ہی دیر بعد روک دیا گیا اور مہاجرین کو اترنے پر مجبور کر دیا گیا۔ اُنہیں ہنگری کے ایک مہاجر کیمپ میں پہنچا دیا گیا تاکہ وہاں اُن کی باقاعدہ رجسٹریشن کی جا سکے۔
تصویر: DW/L. Scholtyssyk
گہری بداعتمادی
بوڈاپیسٹ کے ریلوے اسٹیشن پر پڑے رہ جانے والے مہاجرین میں افغانستان کا شریفی بھی ہے، جس کے ساتھ اُس کی ایک سالہ بیٹی مہیبہ بھی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اب اُسے ہنگری کے حکام پر کوئی اعتبار نہیں رہا۔