عراق: مقتدیٰ الصدر نے قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کر دیا
4 اگست 2022
صدر کے حامیوں نے پارلیمنٹ پر دھاوا بول دیا تھا اور پھر دھرنے پر بیٹھنے کا اعلان کیا تو ان سے ایرانی حمایت یافتہ سیاسی دھڑے کے ساتھ بات چیت کا مطالبہ کیا گیا۔ تاہم انہوں نے مقننہ کو تحلیل کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔
تصویر: Nabil al-Jurani/AP/picture alliance
اشتہار
عراق کے طاقتور شیعہ عالم مقتدیٰ الصدر نے عراق کی پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے اور قبل از وقت انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس سے قبل ہفتے کے اواخر میں ہزاروں پیروکاروں نے پارلیمنٹ کی عمارت پر دھاوا بول دیا تھا اور پھر دھرنا دینے کا اعلان کیا۔ اسی کے بعد الصدر کا یہ مطالبہ سامنے آیا۔
مقتدی الصدر کے حامی مظاہرین اگلی حکومت میں ایرانی حمایت یافتہ سیاسی گروپوں کی شمولیت کے خلاف مظاہرہ کر رہے تھے۔ وسطی عراق کے مقدس شہر نجف میں ٹیلی ویژن پر خطاب کے دوران الصدر نے اس بات پر اصرار کیا کہ ''انقلابیوں '' کا دھرنا پارلیمنٹ کے تحلیل ہونے تک جاری رہنا چاہیے۔
اشتہار
تازہ ترین تعطل کے پیچھے کیا ہے؟
عراقی آئین کے مطابق مقننہ کو صرف اسی صورت میں تحلیل کیا جا سکتا ہے جب ارکان کی اکثریت اس کی حمایت کرے۔ تحلیل کرنے کی قرارداد کو بھی ایک تہائی قانون ساز یا پھر یا صدر کی منظوری سے وزیر اعظم کی جانب سے ہی پیش کی جا سکتی ہے۔
حال ہی میں ایک حریف شیعہ گروپ ' کوآرڈینیشن فریم ورک' کی جانب سے سابق وزیر محمد السودانی کو وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کیا گیا تھا اور شیعہ عالم دین مقتدی الصدر کے حامی اس بات سے کافی ناراض ہیں۔
الصدر کی جماعت گزشتہ اکتوبر میں ہونے والے عام انتخابات میں اکثریت سے محروم رہی تھی تاہم کامیاب ہونے والا سب سے بڑا سیاسی دھڑا بن کر ابھرا تھا۔ حکومت سازی کے تعطل کو دور کرنے کی کوشش میں ناکامی کے بعد الصدر کے بلاک کے 73 قانون سازوں نے جون میں استعفیٰ دے دیا تھا۔
ان استعفوں کی وجہ سے عراقی پارلیمان میں ایران نواز اتحاد سب سے بڑا اتحاد بن کر ابھرا، جس کے مقتدی الصدر مخالف ہیں۔ الصدر کا کہنا ہے کہ انہیں ''یقین'' ہے کہ عراقی عوام ''میری تحریک سے تعلق رکھنے والے کچھ سیاستدانوں سمیت حکمران طبقے سے مکمل طور پر مایوس ہو چکے ہیں۔''
تصویر: Thaier Al-Sudani/REUTERS
بات چیت سے کوئی فائدہ نہیں
مقتدی الصدر نے بیشتر ایران نواز سیاستدانوں پر مشتمل 'کوآرڈینیشن فریم ورک' کے اپنے سیاسی حریفوں کے ساتھ بات چیت کو بھی مسترد کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں ہونے والی بات چیت سے، ''ہمارے لیے یا پھر ملک کے لیے کچھ بھی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔''
انہوں نے کہا، ''اس مکالمے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، خاص طور پر جب لوگوں نے اپنی آزادانہ اور بے ساختہ بات کہہ دی ہو۔''
کوآرڈینیشن فریم ورک میں حشد الشعبی نامی وہ ملیشیا بھی شامل ہے جسے اب عراق کی سیکورٹی فورسز میں ضم کر دیا گیا ہے۔ الصدر کے دیرینہ سیاسی حریف سابق وزیر اعظم نوری المالکی بھی اس گروپ کا حصہ ہیں۔
سبکدوش ہونے والے وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی، صدر براہیم صالح اور سابق وزیر اعظم نوری المالکی سمیت فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں جیسے بین الاقوامی رہنما بھی سیاسی تعطل کے خاتمے کے لیے بات چیت کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ تاہم الصدر نے مذاکرات کو مسترد کر دیا ہے۔
اقوام متحدہ نے بھی عراق کے سیاسی رہنماؤں پر زور دیا ہے کہ وہ قومی مفاد کو ترجیح دیں اور اقتدار کی کشمکش کو ختم کریں۔
عراق میں اقوام متحدہ کے مشن نے بدھ کے روز خبردار کرتے ہوئے کہا، ''تمام عراقی جماعتوں کے درمیان بامعنی بات چیت اب پہلے سے
کہیں زیادہ ضروری ہے، کیونکہ حالیہ واقعات سے اس کشیدہ سیاسی ماحول میں مزید ابتری کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔''
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی)
ایران عراق جنگ، چالیس برس بیت گئے
ایران اور عراق کے مابین ہوئی جنگ مشرق وسطیٰ کا خونریز ترین تنازعہ تھا۔ آٹھ سالہ اس طویل جنگ میں کیمیائی ہتھیار بھی استعمال کیے گئے تھے۔ اس تنازعے کی وجہ سے اس نے خطے میں فرقہ ورانہ تقسیم میں بھی اضافہ کیا۔
تصویر: picture-alliance/Bildarchiv
علاقائی تنازعہ
بائیس ستمبر سن 1980 کو عراقی آمر صدام حسین نے ایرانی حدود میں فوجی دستے روانہ کیے تھے، جس کے نتیجے میں آٹھ سالہ جنگ کا آغاز ہو گیا تھا۔ اس جنگ میں ہزاروں افراد مارے گئے۔ دو شیعہ اکثریتی ممالک میں یہ جنگ ایک علاقائی تنازعے کی وجہ سے شروع ہوئی تھی۔
تصویر: defapress
الجزائر معاہدہ
اس جنگ سے پانچ برس قبل سن 1975 میں اس وقت کے نائب صدر صدام حسین اور ایران کے شاہ نے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس میں سرحدی تنازعات کو حل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ تاہم بغداد حکومت نے ایران پر الزام عائد کیا تھا کہ اس نے آبنائے ہرمز میں واقع تین جزائر پر حملے کی سازش تیار کی تھی۔ ان جزائر پر ایران اور متحدہ عرب امارات دونوں ہی اپنا حق جتاتے تھے۔
تصویر: Gemeinfrei
اہم آبی ذریعہ
سترہ ستمبر سن 1980 کو عراقی حکومت نے الجزائر معاہدے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے دو سو کلو میٹر طویل اہم ایشائی دریا شط العرب پر اپنا حق جتا دیا تھا۔ گلف کا یہ اہم دریا دجلہ اور فرات سے مل کر بنتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/N. al-Jurani
شہروں اور بندگارہوں پر بمباری
عراقی صدر صدام حسین نے ایرانی ہوائی اڈوں پر بمباری کی، جن میں تہران کا ایئر پورٹ بھی شامل تھا۔ ساتھ ہی عراقی فورسز نے ایرانی فوجی تنصیبات اور آئل ریفائنریوں کو بھی نشانہ بنایا۔ جنگ کے پہلے ہفتے میں عراقی فورسز کو مزاحمت نہیں ملی اور اس نے قصر شیریں اور مہران سمیت ایران کی جنوب مشرقی پورٹ خرمشھر پر قبضہ کر لیا۔ یہ وہ مقام ہے، جہاں شط العرب سمندر سے جا ملتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Bildarchiv
مشترکہ دشمن
اس جنگ میں گلف ممالک نے عراق کا ساتھ دیا۔ بالخصوص سعودی عرب اور کویت کو ڈر تھا کہ ایرانی اسلامی انقلاب مشرق وسطیٰ کے تمام شیعہ اکثریتی علاقوں پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ مغربی ممالک بھی عراق کے ساتھ تھے اور انہوں نے صدام حسین کو اسلحہ فروخت کرنا شروع کر دیا۔
تصویر: Getty Images/Keystone
ایران فورسز کی جوابی کارروائی
ایرانی فورسز کی طرف سے جوابی حملہ عراق کے لیے ایک سرپرائز ثابت ہوا۔ اس کارروائی میں ایرانی فوج نے خرمشھر پورٹ کا کنٹرول دوبارہ حاصل کر لیا۔ تب عراق نے سیز فائر کا اعلان کرتے ہوئے اپنی افواج واپس بلا لیں۔ تاہم ایران نے جنگ بندی تسلیم نہ کی اور عراقی شہروں پر بمباری شروع کر دی۔ اپریل سن 1984 دونوں ممالک کی افواج نے شہروں پر حملے کیے۔ یوں دونوں ممالک کے تیس شہر شدید متاثر ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/UPI
کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال
اس جنگ میں عراقی صدر صدام حسین نے کیمیائی ہتھیار بھی استعمال کیے۔ سن 1984میں ایران نے یہ الزام عائد کیا، جسے بعد ازاں اقوام متحدہ نے بھی تسلیم کر لیا۔ سن 1988 میں بھی عراقی فورسز نے کیمیکل ہتھیار استعمال کیے۔ ایران نے دعویٰ کیا کہ جون 1987 میں عراق نے ایرانی شہر سردشت میں زہریلی گیس سے حملہ کیا جبکہ مارچ 1988 میں کرد علاقے میں واقع حلبجة میں عراقی شہریوں کو نشانہ بنایا۔
تصویر: Fred Ernst/AP/picture-alliance
فائر بندی
اٹھارہ جولائی 1988 کو ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے پیش کردہ فائربندی کی تجویز قبول کی۔ اس جنگ میں ہلاک ہونے والے افراد کی درست تعداد کے بارے میں مصدقہ اطلاع نہیں ہے لیکن ایک اندازے کے مطابق کم ازکم ساڑھے چھ لاکھ افراد اس تنازعے کے سبب ہلاک ہوئے۔ دونوں ممالک نے بیس اگست سن 1988 کو جنگ بندی کا اعلان کیا تھا۔
تصویر: Sassan Moayedi
نیا باب
سن 2003 میں جب امریکی فوج نے عراقی آمر صدام حسین کا تختہ الٹ دیا تو مشرق وسطیٰ میں ایک نیا باب شروع ہوا۔ تب سے ایران اور عراق کے باہمی تعلقات میں بہتری پیدا ہونا شروع ہو گئی۔ اب دونوں ممالک نہ صرف اقتصادی بلکہ ثقافتی و سماجی معاملات میں بھی باہمی تعلقات بہتر بنا چکے ہیں۔