عراق: مقتدیٰ الصدر کے حامیوں کا عدالت کے باہر دھرنا شروع
24 اگست 2022
عراق کے معروف شیعہ عالم مقتدیٰ الصدر کے پیروکار عدالت سے پارلیمان کو تحلیل کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ عراق کے سن 2021 کے انتخابات میں قطعی اکثریت نہ ملنے کے بعد سے ہی حریف شیعہ دھڑوں کے درمیان سیاسی بحران جاری ہے۔
اشتہار
عراق کے دارالحکومت بغداد میں 23 اگست منگل کے روز ملکی سپریم کورٹ کو اس وقت اپنی تمام کارروائیاں معطل کرنی پڑیں، جب معروف شیعہ عالم مقتدیٰ الصدر کے بہت سے حامیوں نے عدالت کے صدر دفتر کے باہر دھرنا شروع کر دیا۔
سپریم جوڈیشل کونسل اور وفاقی سپریم کورٹ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ''فون پر دھمکیاں '' ملنے کے بعد انہیں عدالتی کام کاج معطل کرنا پڑا۔
شیعہ عالم دین کے حامی عدلیہ سے پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان کے حامی پچھلے تین ہفتوں سے پارلیمنٹ کے باہر پہلے سے ڈیرا ڈالے ہوئے ہیں۔ گزشتہ ہفتے الصدر نے پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کے لیے ملکی عدلیہ کو ایک ہفتے کا وقت دیا تھا۔ تاہم عدالت نے انہیں جواب دیا کہ اسے ایسا کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔
دھرنے پر رد عمل کیا رہا؟
سیاسی بدامنی کے درمیان ملک کے نگراں وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی کو اپنے دورہ مصر، کو مختصر کرکے وطن واپس لوٹ آئے ہیں، جہاں وہ پانچ ممالک کے سربراہی اجلاس میں شرکت کرنے والے تھے۔
کاظمی کے دفتر سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ وزیر اعظم نے ''تمام سیاسی جماعتوں پر زور دیا ہے کہ وہ پرسکون رہیں اور ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کے لیے قومی بات چیت کے مواقع سے فائدہ اٹھائیں۔''
گزشتہ ہفتے بھی وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی نے مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے ساتھ سیاسی بحران پر بات چیت کی تھی۔ تاہم مقتدیٰ الصدر کے بلاک نے ان مذاکرات کا بائیکاٹ کیا تھا۔
عراق میں اقوام متحدہ کے مشن کا کہنا ہے کہ وہ ''پرامن احتجاج'' کے حق کا تو احترام کرتا ہے لیکن ''ریاستی اداروں کے احترام'' پر بھی زور دیتا ہے۔
ایک دیگر حریف شیعہ اتحاد 'کوآرڈینیشن فریم ورک' نے کہا کہ جب تک صدر کے حامی ''اداروں پر اپنے قبضے'' کو ختم نہیں کر دیتے، اس وقت تک وہ ''براہ راست بات چیت کے کسی بھی مطالبے کو تسلیم نہیں کریں گے۔''
اشتہار
صدر کے حامی کون ہیں اور وہ چاہتے کیا ہیں؟
مقتدیٰ الصدر ایک بااثر شیعہ عالم ہیں، جو ایک وقت عراق میں امریکی افواج کی مداخلت کے سخت دشمن تھے۔ عراق میں ان کے لاکھوں حامی ہیں اور وہ ملک کے اہم پاور بروکرز میں سے ایک ہیں۔
گزشتہ برس اکتوبر میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں الصدر کا بلاک پارلیمنٹ میں سب سے بڑا دھڑا بن کر ابھرا تھا، تاہم اسے قطعی اکثریت حاصل نہیں ہوئی تھی۔ انتخابی مہم کے دوران اس گروپ نے اپنے آپ کو اسٹیبلشمنٹ مخالف کے طور پر پیش کیا تھا۔ یہ سیاسی گروپ کرپشن اور بدانتظامی کے ساتھ ساتھ عراقی سیاست میں ایران کی مداخلت پر بھی تنقید کرتا ہے۔
صدر کے حامیوں کا اصرار ہے کہ آئین میں ترمیم کی جائے تاکہ ان کا بلاک وزیر اعظم کو نامزد کر سکے۔ الصدر کے بلاک کے 73 قانون سازوں نے مہینوں کے سیاسی تعطل کے بعد جون میں پارلیمنٹ سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
اس کے برعکس حریف شیعہ گروپ 'کوآرڈینیشن فریم ورک' جسے تہران کی حمایت حاصل ہے، نئے انتخابات کے انعقاد سے قبل ایک عبوری حکومت چاہتی ہیں۔
ص ز/ ج ا (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)
عراق میں احتجاجی مظاہرے، بیسیوں افراد ہلاک
عراق میں گزشتہ تین روز سے غربت اور بے روزگاری کے خلاف جاری احتجاجی مظاہروں میں کم از کم 44 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ مزید مظاہروں کے پیش نظر دارالحکومت بغداد میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔ حالات مزید کشیدہ ہو سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Mohammed
احتجاجی مظاہرے پھیلتے ہوئے
یکم اکتوبر کو ہزاروں مظاہرین نے بغداد میں حکومت مخالف مظاہروں میں شرکت کی۔ ان کے مطالبات میں بدعنوانی کا خاتمہ، بے روزگاری میں کمی اور بہتر عوامی سہولیات کی فراہمی شامل تھے۔ مظاہرین نے شہر کے حکومتی عمارات اور غیرملکی سفارت خانوں والے گرین زون میں داخل ہونے کی کوشش بھی کی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. al Mohammedaw
پولیس کا کریک ڈاؤن
پولیس نے مظاہرین کی گرین زون میں داخل ہونے کی کوشش کا جواب آنسو گیس، سڑکوں کی بندش اور ربڑ کی گولیوں اور لائیو فائرنگ سے دیا۔ مظاہرین نے التحریر اسکوائر چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ اس دوران دو سو سے زائد مظاہرین زخمی اور ایک ہلاک ہو گیا۔ اسی دن عراق کے کئی دیگر شہروں میں بھی درجنوں افراد زخمی ہوئے اور ایک شخص مارا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Mohammed
صبر و تحمل کی اپیل
نئی عراقی حکومت کو اقتدار سنبھالے ابھی صرف ایک سال ہی ہوا ہے۔ ان مظاہروں کے بعد بغداد میں سکیورٹی بڑھا دی گئی اور عراقی صدر نے مظاہرین سے قانون کی پاسداری کرنے کی اپیل کی۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کے اعلٰی اہلکاروں نے اس صورتحال پر ’گہری تشویش‘ ظاہر کی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/F. Belaid
مزید احتجاج، مزید ہلاکتیں
اس کے باوجود مظاہرین نے اپنا احتجاج جاری رکھا۔ دو اکتوبر کو بغداد کے پرانے حصے میں مظاہروں کا آغاز ہوا۔ پولیس مظاہرین سے نمٹنے کے لیے وہاں پہلے ہی موجود تھی اور نئے سرے سے فائرنگ کے واقعات بھی پیش آئے۔ شام تک مزید سات افراد ہلاک ہو چکے تھے اور دو دن میں ہی ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر نو ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Mizban
احتجاجی مظاہرے پھیلتے ہوئے
یہ احتجاجی مظاہرے بغداد سے ملک کے جنوبی حصوں تک پھیل رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ فسادات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ کئی علاقوں میں مظاہرین نے سرکاری عمارات کو آگ بھی لگا دی۔ عراقی وزیر اعظم نے ان مظاہروں کا الزام ’جارحیت پسندوں‘ پر عائد کرتے ہوئے ایک ہنگامی قومی سکیورٹی اجلاس طلب کر لیا۔ کئی سیاستدان حکومت اور کئی دیگر مظاہرین کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Mizban
بغداد میں کرفیو لیکن ہلاکتیں جاری
ابھی تک ملک کے کئی حصوں میں جاری احتجاج کے نتیجے میں کم از کم 44 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ جنوبی شہر ناصریہ میں اب تک 18 اور بغداد میں 16 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ زخمی ہونے والوں کی تعداد بھی سینکڑوں میں ہے۔ عراق کے اعلیٰ شیعہ رہنما سید علی حسینی سیستانی نے فریقین سے پرامن رہنے کی اپیل کی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Mohammed
عراق کا سفر نہ کریں!
قطر کی وزارت خارجہ نے اپنے شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ فی الحال عراق کا سفر کرنے سے گریز کریں۔ خلیجی ملک بحرین نے بھی اسی طرح کا ایک انتباہی پیغام جاری کیا ہے۔ ایران نے بھی اپنے شہریوں کو عراق جانے سے روک دیا ہے۔ بغداد حکومت نے بھی سرحدوں کی نگرانی سخت بنانے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Al-Rubaye
ایران کا اسرائیل اور امریکا پر الزام
ایران کے ایک سینئر اہلکار اور سیاستدان محمد امامی کاشانی نے بدامنی کے ان واقعات کا الزام اسرائیل اور امریکا پر عائد کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ممالک نہیں چاہتے کہ عراق میں رواں ماہ کے اواخر میں کربلا کا اجتماع پرامن طریقے سے ہو۔ ایران ماضی میں بھی ایسے ہی الزامات عائد کرتا آیا ہے۔
تصویر: Reuters/K. al-Mousily
حالات مزید بگڑ سکتے ہیں
عراقی حکومت نے بغداد کے ساتھ ساتھ تین دیگر جنوبی شہروں میں بھی غیرمعینہ مدت کے لیے کرفیو نافذ کر دیا ہے۔ دوسری جانب ملک بھر میں مظاہرے پھیلتے جا رہے ہیں۔ دارالحکومت کے نواح میں ہوائی اڈے کے قریب بھی مظاہرے جاری ہیں۔ عراق اور ایران کی سرحد بھی بند کر دی گئی ہے۔