1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق، موصل پر جنگجوؤں کا قبضہ

عاطف بلوچ10 جون 2014

جنگجوؤں نے عراق کے دوسرے سب سے بڑے شہر موصل پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ اس پیشرفت کو شیعہ وزیر اعظم کی حکومت کے لیے ایک دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔ اس تشدد کے نتیجے میں ڈیڑھ لاکھ افراد موصل سے فرار ہونے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

تصویر: Reuters

’اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ دی لیونٹ‘ نامی سنی انتہا پسند گروہ کے جنگجوؤں کی طرف سے منگل کے دن موصل پر قبضے کے بعد وزیر اعظم نوری المالکی نے پارلیمان سے کہا ہے کہ وہ اس شہر میں ہنگامی حالت نافذ کرنے کی منظوری دے۔ مالکی کے بقول موصل کے ایسے تمام شہریوں کو مسلح کیا جائے گا، جو ان شدت پسند جنگجوؤں اور ان کے اتحادیوں سے لڑنے کے خواہاں ہوں گے۔

عراقی صوبے نینوا کی زیادہ تر آبادی سنی ہے

عراقی پارلیمان کے اسپیکر اسامہ النجفی نے منگل کے دن بغداد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے تصدیق کی، ’’نینوا کا پورا صوبہ جنگجوؤں کے قبضے میں جا چکا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ اب یہ سنی انتہا پسند جنوب کی سمت واقع صلاح الدین نامی صوبے کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں۔

عراقی فوج کے ایک بریگیڈيئر جنرل نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا ہے کہ ’اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ دی لیونٹ‘ کے جنگجوؤں نے پیر کی رات گئے سکیورٹی فورسز پر ایک بڑا حملہ کیا۔ ادھر وزارت داخلہ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ موصل میں جمعے اور ہفتے کے دن ہونے والی جھڑپوں کے بعد وہاں حکومتی رٹ ختم ہو گئی تھی اور یہ علاقہ جنگجوؤں کے رحم و کرم پر چلا گیا تھا۔

موصل سے آمدہ رپورٹوں کے مطابق جب جنگجوؤں نے حملہ کیا تو سکیورٹی فورسز کے متعدد اہلکار فرار ہو گئے۔ اس دوران جنگجوؤں نے لاؤڈ اسپیکرز پر اعلان کیا کہ وہ دو ملین آبادی والے اس شہر کو ’آزاد کرانے‘ کے لیے وہاں پہنچ چکے ہیں۔ موصل میں موجود اے ایف پی کے ایک نمائندے نے بتایا کہ وہاں دوکانیں بند ہو گئیں، ایک پولیس اسٹیشن کو نذر آتش کر دیا گیا جبکہ سکیورٹی فورسز کی متعدد گاڑیوں کو تباہ کر دیا گیا۔ بتایا گیا ہے کہ ڈیرھ لاکھ افراد شمال میں واقع خود مختار کرد علاقے کی سمت ہجرت پر مجبور ہو گئی ہے۔

لوگوں کی ایک بڑی تعداد شمال میں واقع خود مختار کرد علاقے کی سمت ہجرت پر مجبور ہو گئی ہےتصویر: Safin Hamed/AFP/Getty Images

عراقی صوبے نینوا کی زیادہ تر آبادی سنی ہے۔ اس صوبے کا دارالحکومت موصل ایک طویل عرصے سے جنگجوؤں کا گڑھ تصور کیا جاتا رہا ہے۔ اس صوبے میں دیگر انتہا پسند گروپوں اور جہادیوں کے علاوہ اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ دی لیونٹ (آئی ایس آئی ایس) بھی بہت زیادہ فعال ہے۔

امریکا نے موصل کے حالات پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئی ایس آئی ایس نہ صرف عراق بلکہ پورے کے پورے خطے کے لیے ایک خطرہ ہے۔ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ترجمان جین ساکی نے کہا کہ عراق کے دوسرے سب سے بڑے شہر کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے اور امریکا جنگجوؤں کی جارحیت کا جواب دینے کے لیے بغداد حکومت کی حمایت کرتا ہے۔ اقوام متحدہ نے بھی موصل کی صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں