’عراق ميں اضافی فضائی حملوں اور بھاری اسلحے کی ضرورت ہے‘
9 دسمبر 2014امريکی وزير دفاع چک ہيگل نے آج نو دسمبر کے روز بغداد پہنچنے کے بعد عراقی وزير اعظم حيدر العبادی سے ملاقات کی، جس ميں العبادی نے اسلامک اسٹيٹ سے نمٹنے کے ليے اضافی اسلحے اور جہاديوں کے خلاف اتحاديوں کے حملوں ميں اضافے کے مطالبات سامنے رکھے۔ العبادی نے کہا، ’’ہماری افواج زمين پر کافی پيش قدمی کر رہی ہيں تاہم انہيں اضافی فضائی حملوں اور بھاری اسلحے کی ضرورت ہے۔‘‘
قبل ازيں دارالحکومت بغداد آمد کے بعد ہيگل نے امريکی اور آسٹريلوی فوجيوں کے ايک گروپ سے ملاقات کی، جس ميں انہوں نے کہا کہ عراق ميں اسلامک اسٹيٹ کے خلاف عالمی اتحاد کی کارروائی کیا رخ اختیار کرتی ہے، اس کا انحصار عراقی حکومت پر ہی ہے۔ ہيگل نے کہا، ’’يہ ان کا ملک ہے، انہيں قيادت کرنی ہو گی، حتمی نتائج کی ذمہ داری بھی انہيں ہی اٹھانا ہو گی۔‘‘ امريکی وزير دفاع کے بقول عراقی اعلیٰ قيادت کو ايک ايسی نمائندہ حکومت تشکيل دينا ہو گی، جو ملک کے تمام مذہبی و نسلی گروپوں کا اعتماد حاصل کر سکے۔
چگ ہيگل کو اس دورے پر عراق ميں تعينات امريکی فوج کے کمانڈرز اسلامک اسٹيٹ کے خلاف جاری فضائی کارروائی کے بارے ميں بريفنگ ديں گے۔ اس کے علاوہ ان کی اپنے عراقی ہم منصب کے ساتھ ملاقات بھی طے ہے۔
سن 2011 ميں عراق سے غير ملکی افواج کے انخلاء کے بعد يہ پہلا موقع ہے کہ کوئی امريکی وزير دفاع وہاں کا دورہ کر رہا ہے۔ سن 2013 ميں منصب سنبھالنے کے بعد ہيگل اپنے پہلے دورہ عراق پر نو دسمبر کی صبح کويت سے عراق پہنچے۔
چک ہيگل عراق کا يہ دورہ ايک ايسے وقت کر رہے ہيں کہ جب معلوم ہوتا ہے کہ وہاں اسلامک اسٹيٹ کے خلاف کارروائی ايک نئے دور ميں داخل ہو رہی ہے۔ رواں برس آٹھ اگست سے امريکی اور اتحادی افواج کے لڑاکا طيارے جہاديوں کے خلاف بارہ سو سے زائد حملے کر چکے ہيں۔ عراق ميں امريکی سفارت خانے اور ديگر تنصيبات کی حفاظت کے ليے پہلے ہی پندرہ سو امريکی فوجی وہاں تعينات تھے۔ پھر گزشتہ ماہ صدر باراک اوباما نے عراق ميں اپنے پندرہ سو مزيد فوجيوں کی تعيناتی کے احکامات جاری کر ديے۔ کل پير کے روز کويت ميں امريکی فوج کے ايک اعلیٰ کمانڈر ليفٹيننٹ جنرل جيمز ٹيری نے بتايا کہ اتحادی ممالک نے بھی پندرہ سو فوجيوں کو عنقريب عراق بھيجنے کا وعدہ کيا ہے، جو وہاں مقامی افواج کی تربيت و معاونت کريں گے۔
يہ امر اہم ہے کہ ہيگل نے پچھلے ماہ يہ اعلان کيا تھا کہ وہ مستعفی ہو رہے ہيں۔ امريکا کے اندرونی حلقوں ميں يہ بات کی جا رہی ہے کہ ہيگل کے استعفے کی وجہ اسلامک اسٹيٹ کے خلاف کارروائی ميں واشنگٹن کی حکمت عملی ميں تبديلی ہے۔ ايسی اطلاعات بھی ہيں کہ انتظاميہ اور ہيگل کے مابين اختلافات اس فيصلے کا سبب بنے۔ تاہم ہيگل نے اپنے ايک حاليہ بيان ميں وضاحت کی کہ انہوں نے مستعفی ہونے کا فيصلہ صدر باراک اوباما کے ساتھ باہمی مشاورت کے ذريعے کيا ہے اور انہيں اس فيصلے پر مجبور نہيں کيا گيا۔