1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق ميں سلسلہ وار بم دھماکے، درجنوں ہلاک

29 نومبر 2012

عراق میں آج جمعرات کو ہونے والے سلسلہ وار بم دھماکوں کے نتیجے میں، جن کا نشانہ زیادہ تر شیعہ آبادی کو بنایا گیا تھا، چاليس سے زائد افراد ہلاک اور قريب ڈيڑھ سو زخمی ہو گئے ہيں۔

تصویر: Reuters

نيوز ايجنسی ڈی پی اے کے مطابق عراقی دارالحکومت بغداد سے قريب ايک سو کلومیٹر جنوب کی طرف واقع شہر حلہ ميں سڑک کنارے ہونے والے دوہرے بم دھماکے کے نتيجے ميں تقریباً 35 شہری ہلاک ہوئے۔ ان دھماکوں کی خبر السومریہ نيوز نامی ادارے کی ويب سائٹ پر ايک مقامی سکيورٹی اہلکار کے حوالے سے جاری کی گئی ہے۔ حسن فدام نامی اس اہلکار نے بتايا کہ مقامی شيعہ آبادی کے ايک اجتماع کے موقع پر پيش آنے والے اس واقعے ميں ايک سو سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے ہيں۔

دريں اثناء بغداد سے قريب 118 کلومیٹر جنوب کی جانب واقع ايک اور شہر کربلا ميں ہونے والے ایک کار بم حملے ميں نو افراد ہلاک اور تقریباً 30 زخمی ہو گئے۔

ادھر فلوجہ شہر میں ایک شخص نے فوجیوں کے ایک گروپ کے درمیان خود کو دھماکے سے اڑا دیا اور تین فوجیوں کو ہلاک کر دیا۔ يہ شہر دارالحکومت سے قريب ساٹھ کلوميٹر دور مغرب ميں واقع ہے۔ دوسری جانب موصل نامی ايک اور شہر سے بھی ايک کار بم حملے کی اطلاعات موصول ہوئی ہيں، جس ميں ايک پوليس اہلکار اور ايک شہری کی ہلاکت رپورٹ کی گئی ہے۔

نيوز ايجنسيوں کے مطابق عراق ميں آج کا دن گزشتہ دو سے زائد مہينوں کے بعد سب سے خونريز ہے۔ اس سے قبل رواں سال نو ستمبر کو ہونے والے متعدد دھماکوں کے نتيجے ميں مرنے والوں کی تعداد 72 رہی تھی۔

ايک تباہ شدہ مکانتصویر: Reuters

آج ہونے والے دھماکے رواں ہفتے کے دوران شيعہ آبادی کو نشانہ بنانے والے دوسرے حملے ہيں۔ اس سے قبل منگل کے روز بھی بغداد ميں تين کار بم دھماکے ہوئے تھے، جن کے نتيجے ميں ہلاک ہونے والوں کی تعداد بارہ رہی تھی۔

ايک اور خبر رساں ادارے اے ايف پی کے مطابق طبی اور مقامی سکيورٹی اہلکاروں کے ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق رواں مہينے ملک بھر ميں ہونے والے دھماکوں ميں ہلاک ہونے والوں کی کل تعداد قريب 150 تک پہنچ گئی ہے۔

اس صورتحال پر اے ايف پی سے بات کرتے ہوئے سکيورٹی اور اسٹرٹيجک معاملات کے ايک عراقی ماہر علی الحيدری کا کہنا تھا: ’’ہوا يہ ہے کہ عاشورہ کے موقع پر سکيورٹی اہلکار مکمل طور پر تيار اور چوکنے تھے، بعد ازاں اس ميں کچھ کمی واقع ہوئی۔‘‘

as/ng (AFP, dpa)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں