عراق ميں ’اسلامک اسٹيٹ‘ کو شکست ديے جانے کے بعد پہلے عام انتخابات کا انعقاد ہو رہا ہے تاہم ملکی عوام اس بارے ميں شکوک کا شکار ہیں کہ آيا آئندہ حکومت ملک کو عدم استحکام اور اقتصادی بدحالی سے نکالنے ميں کامياب ہو جائے گی۔
تصویر: Reuters/T. al-Sudani
اشتہار
عراق ميں آج ہفتہ بارہ مئی کو عام اليکشن ہو رہے ہیں۔ ایک اکسٹھ سالہ قصاب جمال موسوی کا رائے دہی کے عمل سے قبل کہنا تھا کہ وہ اس اليکشن ميں شرکت تو کرے گا تاہم اپنا ووٹ ڈالتے وقت وہ صرف تنسیخ کا نشان لگا کر اپنا احتجاج ظاہر کرے گا۔ اس نے کہا، ’’ملک ميں نہ تو سلامتی کی صورتحال اچھی ہے، نہ ملازمتيں ہيں اور نہ ہی سہوليات۔ اميدوار بس اپنی جيبيں بھرنے ميں دلچسپی رکھتے ہيں نہ کہ عوام کی مدد ميں۔‘‘
سن 2003 ميں صدام حسين کی حکومت کے خاتمے کے بعد عراق مسلح تنازعات، اقتصادی مسائل اور بد عنوانی جيسے مسائل کا شکار رہا ہے۔ سياسی اور جغرافيائی عوامل کے علاوہ عراق کو شدت پسند تنظيم ’اسلامک اسٹيٹ‘ کے خلاف تين سالہ جنگ کے خاتمے کے بعد بھی تاحال کئی ديگر مسائل کا سامنا ہے۔ موصل جيسے چند بڑے شہر ملبے کا ڈھير بنے ہوئے ہيں جبکہ نسلی بنيادوں پر تفريق کے سبب سلامتی کی صورت حال اب بھی انتہائی غير مستحکم ہے۔ ايران کی جوہری سرگرميوں کو محدود کرنے سے متعلق ڈيل سے امريکا کی دستبرداری کے فيصلے کے تناظر ميں عراقی عوام کو يہ خدشہ بھی ہے کہ کہيں ان کا ملک واشنگٹن اور تہران کے مابين مسلح تنازعے کا ميزبان نہ بن جائے۔
آج کے عام انتخابات ميں ملک کے اٹھارہ صوبوں ميں تقريباً سات ہزار اميدوار پارليمانی نشستوں کے ليے لڑ رہے ہيں۔ عراق کی لگ بھگ سينتيس ملين کی آبادی ميں سے قريب چوبيس ملين شہری ووٹ ڈالنے کے اہل ہيں۔
عراق ميں تين بڑے مذہبی گروپ ہيں۔ وہاں اکثريت شيعہ عرب مسلمانوں کی ہے جبکہ سنی اور کرد اقليتی گروپ بھی کافی بڑے ہيں۔ اگرچہ داعش کے خلاف يہ تنيوں گروپ متحد ہو کر لڑے تھے تاہم نسلی اور فرقہ وارانہ بنيادوں پر تفريق اب بھی موجود ہے۔ وزارت عظمیٰ کے عہدے کے ليے تينوں مرکزی اميدوار شيعہ ہيں۔ حيدر العبادی، نوری المالکی اور شيعہ مليشيا کے کمانڈر ہادی الاميری۔ انتخابات ميں کاميابی کے ليے ايران کی حمايت لازمی ہے کيونکہ خطے کی بڑی شيعہ قوت کے طور پر ايران کا عراق ميں اقتصادی اور عسکری اثر و رسوخ بھی ایک حقیقت ہے۔
سياسی تجزيہ نگاروں کے مطابق حيدر العبادی کو اپنے حريفوں پر برتری حاصل ہے تاہم يہ قطعی طور پر يقينی نہيں کہ وہ اليکشن جيت سکيں گے۔ پچھلی مرتبہ وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالتے وقت العبادی عوام ميں ايسی توقعات کا باعث بنے تھے کہ وہ نسلی اور فرقہ وارانہ تقسيم کو ختم کر سکيں گے۔ تاہم ان کا سنی اقليت کی طرف جھکاؤ زيادہ ديکھا گيا جبکہ کردوں کی آزادی کی تحريک انہوں نے کچل ڈالی۔ علاوہ ازيں العبادی نہ تو کرپشن کا انسداد کر پائے اور نہ ہی ملکی اقتصادی صورتحال ميں کوئی بہتری لا سکے۔
داعش کے خلاف برسر پیکار ایران کی کُرد حسینائیں
ایران کی تقریباﹰ دو سو کرد خواتین عراق کے شمال میں داعش کے خلاف لڑ رہی ہیں۔ یہ کردوں کی فورس پیش مرگہ میں شامل ہیں اور انہیں امریکی افواج کی حمایت بھی حاصل ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق جب بھی داعش کے عسکریت پسندوں کی طرف سے ایران کی ان کرد خواتین پر مارٹر گولے برسائے جاتے ہیں تو سب سے پہلے یہ ان کا جواب لاؤڈ اسپیکروں پر گیت گا کر دیتی ہیں۔ اس کے بعد مشین گنوں کا رخ داعش کے ٹھکانوں کی طرف کر دیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
اکیس سالہ مانی نصراللہ کا کہنا ہے کہ وہ گیت اس وجہ سے گاتی ہیں تاکہ داعش کے عسکریت پسندوں کو مزید غصہ آئے، ’’اس کے علاوہ ہم ان کو بتانا چاہتی ہیں کہ ہمیں ان کا خوف اور ڈر نہیں ہے۔‘‘ تقریباﹰ دو سو ایرانی کرد خواتین ایران چھوڑ کر عراق میں جنگ کر رہی ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
یہ کرد خواتین چھ سو جنگ جووں پر مشتمل ایک یونٹ کا حصہ ہیں۔ اس یونٹ کا کردستان فریڈم پارٹی سے اتحاد ہے۔ کرد اسے ’پی اے کے‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
چھ سو جنگ جووں پر مشتمل یہ یونٹ اب عراقی اور امریکی فورسز کے زیر کنٹرول اس یونٹ کے ساتھ ہے، جو موصل میں داعش کے خلاف برسر پیکار ہے۔ کرد جنگ جووں کا اپنے ایک ’آزاد کردستان‘ کے قیام کا بھی منصوبہ ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
مستقبل میں کرد جنگ جو شام، عراق، ترکی اور ایران کے چند حصوں پر مشتمل اپنا وطن بنانا چاہتے ہیں لیکن ان تمام ممالک کی طرف سے اس منصوبے کی شدید مخالفت کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی کرد باغیوں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ایک کرد خاتون جنگ جو کا کہنا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے لڑ رہی ہیں۔ وہ سرزمین چاہیے ایران کے قبضے میں ہو یا عراق کے وہ اپنی سر زمین کے لیے ایسے ہی کریں گی۔ ان کے سامنے چاہے داعش ہو یا کوئی دوسری طاقت اوہ اپنی ’مقبوضہ سرزمین‘ کی آزادی کے لیے لڑیں گی۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
اس وقت یہ خواتین مرد کردوں کے ہم راہ عراق کے شمال میں واقع فضلیہ نامی ایک دیہات میں لڑ رہی ہیں۔ ایک بتیس سالہ جنگ جو ایوین اویسی کا کہنا تھا، ’’یہ حقیقت ہے کہ داعش خطرناک ہے لیکن ہمیں اس کی پروا نہیں ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ایک جنگ جو کا کہنا تھا کہ اس نے پیش مرگہ میں شمولیت کا فیصلہ اس وقت کیا تھا، جب ہر طرف یہ خبریں آ رہی تھیں کہ داعش کے فائٹرز خواتین کے ساتھ انتہائی برا سلوک کر رہے ہیں، ’’میں نے فیصلہ کیا کہ ان کو میں بھی جواب دوں گی۔‘‘
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ان خواتین کی شمالی عراق میں موجودگی متنازعہ بن چکی ہے۔ ایران نے کردستان کی علاقائی حکومت پر ان خواتین کو بے دخل کرنے کے لیے دباؤ بڑھا دیا ہے۔ سن دو ہزار سولہ میں کرد جنگ جووں کی ایرانی دستوں سے کم از کم چھ مسلح جھڑپیں ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ان کے مرد کمانڈر حاجر باہمانی کا کے مطابق ان خواتین کے ساتھ مردوں کے برابر سلوک کیا جاتا ہے اور انہیں ان خواتین پر فخر ہے۔ ان خواتین کو چھ ہفتوں پر مشتمل سنائپر ٹریننگ بھی فراہم کی گئی ہے۔