عراق ميں پُر تشدد واقعات کی تازہ لہر، درجنوں ہلاک
28 فروری 2014عراقی وزارت داخلہ کی جانب سے جاری کردہ ايک بيان ميں کہا گيا ہے کہ گزشتہ روز بغداد کے الصدر سٹی نامی علاقے ميں ايک موٹر سائيکل پر نصب بم پھٹنے سے کم از کم اکتيس افراد ہلاک اور اکاون ديگر زخمی ہو گئے۔ الصدر سٹی ہی کے علاقے ميں ہونے والے ايک مختلف کار بم دھماکے ميں بھی ايک شخص ہلاک جبکہ پانچ ديگر زخمی ہو گئے۔
دريں اثناء بغداد کے شمال ميں واقع ايک علاقے ميں ايک فوجی قافلے کے قريب پھٹنے والے ايک کار بم کے نتيجے ميں دو فوجی ہلاک اور تين زخمی ہو گئے۔ اسی طرح شرقت نامی ايک اور علاقے ميں بھی سڑک کنارے نصب ايک بم کے پھٹنے سے القاعدہ مخالف مليشيا کے دو جنگجو مارے گئے جبکہ چار ديگر زخمی ہوئے۔ توز خُرمتو نامی ايک اور علاقے ميں مقامی پوليس اسٹيشن کے قريب سڑک کنارے نصب ايک بم پھٹنے سے دو افراد لقمہ اجل بن گئے جبکہ پندرہ کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہيں۔ تين عراقی فوجی صوبہ کرکُوک ميں جنگجوؤں کے ساتھ مسلح جھڑپوں ميں مارے گئے۔
دريں اثناء عراقی وزير اعظم نوری المالکی نے چند بيرونی ممالک پر الزام عائد کيا ہے کہ وہ عراق ميں فعال شدت پسند گروہ ’اسلامی رياست برائے عراق و شام‘ کی پشت پناہی کر رہے ہيں۔ المالکی نے عراقيہ ٹيلی وژن پر اپنے ايک انٹرويو کے دوران کہا، ’’کچھ رياستيں اسلامی رياست برائے عراق و شام کو نہيں چاہتی ہيں، بالخصوص اپنی سرزمين پر، ليکن وہ فرقہ ورانہ وجوہات کی بنا پر اس شدت پسند تنظيم کو عراق ميں فعال ديکھنا چاہتی ہيں۔‘‘
عراقی وزير اعظم کے بقول وہ اسلامی رياست برائے عراق و شام اور اس کے بيرونی تعلقات سے واقف ہيں۔ نيوز ايجنسی اے ايف پی کے مطابق نوری المالکی اپنے اس بيان ميں سنی اکثريتی خليجی ممالک کی جانب اشارہ کر رہے ہيں، جن ميں سعودی عرب بھی شامل ہے۔ عراق ميں سنی عرب اقليت کے افراد عدم اطمينان کا شکار ہيں، اُن کا ماننا ہے کہ اُنہيں امتيازی سلوک کا سامنا ہے اور يہ بھی کہ وہ شام ميں جاری خونريزی سے متاثر ہو رہے ہيں۔ اسی باعث عراق ميں فعال جنگجوؤں کو تقويت حاصل ہوتی ہے۔
عراق ميں جاری فرقہ وارانہ فسادات ميں رواں ماہ کے دوران سات سو سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہيں جبکہ 2014ء کے آغاز سے لے کر اب تک ہلاک ہونے والوں کی کُل تعداد سترہ سو کے لگ بھگ ہے۔