1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تاريخعراق

عراق: دجلہ کے پانیوں سے قدیم شہر دوبارہ ابھر آیا

11 جون 2022

عراق میں شدید خشک سالی نے جرمن اور کرد ماہرین آثار قدیمہ کو دریائے دجلہ پر بنے موصل ڈیم کے پانیوں سے ابھرنے والے ایک قدیم شہر کا معائنہ کرنے کا موقع دیا۔

Irak  - 3400 Jahre alte Stadt aus dem Tigris aufgetaucht
تصویر: Universitäten Freiburg und Tübingen, KAO

عراق کئی مہینوں سے شدید خشک سالی کا شکار ہے۔ فصلوں کو بچانے کے لیے اہم آبی ذخیرے موصل ڈیم سے پانی کی بڑی مقدار استعمال میں لائی گئی۔

پانی کی سطح کم ہونے کی وجہ سے 3400 برس پرانے شہر کی باقیات، جو کئی دہائیوں سے زیر آب تھیں، دوبارہ ابھر آئیں۔

جرمن ماہر آثار قدیمہ ایوانا پلجیز بتاتی ہیں، ''میں نے سیٹلائٹ تصاویر میں دیکھا کہ پانی کی سطح کم ہو رہی ہے لیکن یہ واضح نہیں تھا کہ پانی دوبارہ کب بڑھے گا۔ سو ہمارے پاس ایک نامعلوم وقت تھا۔‘‘

یہ بھی پڑھیے: بارہ ہزار سال پرانا ترک ثقافتی ورثہ ڈیم کے پانی کی نذر

لیکن وہ یہ ضرور جانتی تھیں کہ کمونے نامی آثار قدیمہ کا یہ مقام دلچسپ ہے اور انہیں وہاں ضرور جانا چاہیے۔

شہر صرف چھ ہفتوں کے لیے پانی سے باہر تھاتصویر: Universitäten Freiburg und Tübingen, KAO

ایوانا نے کرد ماہر آثار قدیمہ حسن احمد قاسم اور جرمن آرکیالوجی پروفیسر پیٹر فیلزنر کے ساتھ مل کر وہاں کھدائی کا فیصلہ کیا۔

ہنگامی طور پر جرمن اور کرد ماہرین کی ٹیم تیار کی گئی تاکہ زیادہ سے زیادہ جگہوں پر کھدائی کی جا سکے۔

ٹیم نے جنوری اور فروری کے مہینوں میں سات ہفتوں تک کانسی کے دور کے اس قدیمی شہر کا سروے کیا اور پھر دوبارہ پانی بھر گیا۔

بڑی عمارتوں کی نشاندہی

سن 2018 میں بھی جب پانی کم ہوا تھا تو محققین نے ایک چھوٹی پہاڑی کے قریب ایک قلعہ نما محل دریافت کیا تھا۔ ایوانی کی ٹیم کو اس مرتبہ اسی جگہ سے سرخ اور نیلے رنگ کی پینٹنگز باقیات ملیں۔

ایوانا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پانی میں رہنے کے باوجود مصوری کے رنگ محفوظ دیکھ کر انہیں یقین تھا کہ وہاں آثار قدیمہ کی دلچسپی کی بہت سی چیزیں ہیں۔

وہ کہتی ہیں، ''سن 2018 میں دریافت ہونے والی باقیات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہماری امیدیں کافی تھیں لیکن ہمیں معلوم نہیں تھا کہ اب کیا دریافت ہو گا۔‘‘

ایک تاریخی شہر، جس کا علاقے میں غلبہ تھا

ایک بڑے گودام کی دریافت ماہرین کے لیے خاص طور پر دلچسپ ثابت ہوئی۔ ایوانا کہتی ہیں، ''صرف اس عمارت کا سائز ظاہر کرتا ہے کہ اس میں بہت سا سامان رکھا جانا تھا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شہر نے اپنے کنٹرول والے ارد گرد کے علاقوں سے سامان وصول کیا تھا۔‘‘

ایوانا جرمنی کی فرائبرگ یونیورسٹی سے وابستہ ہیںتصویر: Karl Guido Rijkhoek/Universität Tübingen

ابتدائی نتائج سے معلوم ہوا کہ یہ باقیات ایک قدیمی شہر زخیکو کی ہو سکتی ہیں۔ زخیکو 1550 تا 1350 قبل از مسیح کے زمانے کی میتانی سلطنت کا اہم شہر تھا جس کے کنٹرول میں میسوپوٹیمیا اور شام کے بڑے علاقے شامل تھے۔

ایک سو سے زائد برتن اور تختیاں

ایوانا کے مطابق کچی اینٹوں سے تعمیر کردہ اس عمارت کی دیواریں اور بنیادیں حیرت انگیز طور پر پانی میں رہنے کے باوجود بہت اچھی حالت میں ہیں۔

یہ بھی ممکن ہے کہ 1350 قبل مسیح کے آس پاس آنے والے شدید زلزلے نے اس عمارت کی باقیات کو محفوظ رکھا۔ بظاہر تب عمارت مکمل تباہ ہو گئی تھی اور ملبہ گرنے سے دیوار کا نچلا حصہ ملبے تلے دب گیا جس کی وجہ سے وہ اب تک اچھی حالت میں ہے۔

مٹی کے چھ برتن ملےتصویر: Universitäten Freiburg und Tübingen, KAO

یہ بھی پڑھیے: امریکا نے قدیمی عراقی ثقافت کا نایاب نمونہ واپس کر دیا

محققہ نے یہ بتایا کہ سب سے اہم دریافت پانچ برتن ہیں جن میں 100 سے زیادہ مٹی کی تختیاں ملیں جن پر قدیمی خط میخی سے تحریر کردہ عبارتیں ہیں۔ مخطوطے بھی اچھی حالت میں ہیں۔

میتانی سلطنت کی تاریخ اندھیرے میں چھپی ہے

قدیم زبانوں کے ماہر ان عبارتوں کو پڑھ پائے تو میتانی سلطنت اور ان وقتوں کے بارے میں کئی اہم معلومات حاصل ہو سکتی ہیں۔

میتانی سلطنت کو اب بھی دور قدیم کی سب سے کم دریافت شدہ ریاستوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ سلطنت اپنے عروج کے دور میں بحیرہ روم کے ساحلوں سے لے کر دور جدید کے عراق تک پھیلی ہوئی تھی۔

تختیوں پر درج تحریریں ماضی کے بارے میں بہت کچھ بتا پائیں گیتصویر: Universitäten Freiburg und Tübingen, KAO

کہا جاتا ہے کہ میتانی شاہی خاندان نے مصری فرعونوں اور بابل کے حکمرانوں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھے ہوئے تھے۔

زخیکو شہر کے زوال کے اسباب بھی ابھی تک معلوم نہیں ہیں۔ میتانی سلطنت کے بارے میں جاننے کے لیے اس خطے میں کئی جگہوں پر تحقیق و دریافت کی ضرورت ہے لیکن خطے میں کئی برسوں سے جاری جنگ کے باعث آثار قدیمہ کی کھدائی میں مشکلات درپیش ہیں۔

موصل ڈیم میں پانی دوبارہ بڑھنے سے قبل ماہرین نے کھودے گئے مقامات کو پلاسٹک کی چادروں سے ڈھانپ دیا تاکہ وہ محفوظ رہیں۔

الیگزینڈر فرؤئنڈ (ش ح/ع ت)

گورگھٹڑی: پشاور کی تاریخی اور پرشکوہ عمارت

05:42

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں