1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتعراق

عراق میں بارودی سرنگیں، پانچ سو سے زائد بچے ہلاک یا زخمی

6 اپریل 2022

عراق میں بارودی سرنگوں اور نہ پھٹنے والے بموں کا نشانہ بچے بن رہے ہیں۔ سینکڑوں بچے جان کی بازی ہار چکے ہیں جبکہ زخمی ہونے والے بچوں کا مستقبل تاریک ہو چکا ہے۔

"Dorf der Amputierten" im Irak
تصویر: Reuters/E. Al Sudani

اقوام متحدہ کے اداروں نے خبردار کیا ہے کہ عراق میں گزشتہ پانچ برسوں میں بارودی سرنگوں اور پھینکے جانے کے وقت نہ پھٹنے والے بموں سے کم از کم 519 بچے ہلاک یا زخمی ہوئے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے بہبود اطفال یونیسیف نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں کہا ہے، ''متاثر ہونے والے بچوں میں سے 80 فیصد لڑکے ہیں۔‘‘ یونیسیف نے یہ رپورٹ اقوام متحدہ کے ادارے مائن ایکشن سروس (یو این ایم اے ایس) کے تعاون سے تیار کی ہے اور یہ پیر کی رات جاری کی گئی۔

اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے، ''چائلڈ لیبر کے واقعات کی وجہ سے لڑکے غیر متناسب طور پر متاثر ہوئے ہیں کیوں کہ لڑکے ہی بھیڑ بکریوں کو چرانے یا دھاتیں جمع کرنے کا کام کرتے ہیں۔‘‘ بیان میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ عراق گزشتہ برسوں کے دوران ''کھلے تنازعات کا شکار نہیں ہوا لیکن دھماکہ خیز ہتھیاروں کے اثرات آنے والے برسوں تک دیکھنے میں آتے رہیں گے۔‘‘

تصویر: Halo Trust

 خیراتی ادارے ہیومینیٹی اینڈ انکلوژن کی ایک رپورٹ کے مطابق عراق کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے، جو دھماکہ خیز مواد سے سب سے زیادہ آلودہ ہیں۔ اندازوں کے مطابق بتیس سو پچیس مربع کلومیٹر (1245 مربع میل) سے زیادہ رقبہ اب تک نہ پھٹنے والے بموں اور دھماکہ خیز مواد سے خطرناک حد تک آلودہ ہے۔ یہ دھماکا خیز مواد خاص طور پر ایران، کویت اور سعودی عرب کے ساتھ سرحدوں کے قریب پایا جاتا ہے۔ یہ تمام  علاقے وہ ہیں، جہاں عراق گزشتہ چار دہائیوں سے مسلح تنازعات میں ملوث رہا ہے۔

بغداد نے 1980ء سے 1988ء تک ایران کے ساتھ جنگ لڑی، اسی طرح پہلی خلیجی جنگ، جو 1990 میں کویت پر حملے سے شروع ہوئی تھی۔ بعد ازاں سن 3200ء میں امریکہ نے عراق پر حملہ کر دیا اور پھر لڑائی کے دوران مزید بارودی سرنگیں بچھائی گئیں۔ امریکی افواج کے انخلا کے بعد عراقی فوج نے بھی 2014ء  اور 2017ء  کے درمیان ایک بین الاقوامی اتحاد کی حمایت سے جہادی گروہ 'اسلامک اسٹیٹ‘ کے خلاف جنگ لڑی تھی۔

یونیسیف اور یو این ایم اے ایس کے ایک مشترکہ بیان میں تمام فریقوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ بارودی سرنگوں اور اب تک نہ پھٹنے والے بموں کو ہٹانے کے لیے ہر ممکن کوشش کو تیز کرنے میں مدد فراہم کریں۔ اس بیان میں کہا گیا ہے، ''تمام فریق بارودی سرنگوں اور دھماکہ خیز مواد کی باقیات کو ہٹانے، متاثرین کے لیے امداد کو بہتر بنانے اور محفوظ ماحول میں رہنے کے بچوں کے بنیادی حق کی حمایت کرتے ہوئے اپنی کوششیں تیز کریں۔‘‘

دنیا کے کم از کم  59 ممالک میں اب بھی بارودی سرنگوں سے آلودہ علاقے موجود ہیں۔ سوڈان اور افغانستان ایسے متاثرہ ترین ممالک میں شامل ہیں۔ ہر سال چار اپریل کو بارودی سرنگوں کے خاتمے کے لیے مہم اور اس سے متعلق آگہی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔

ا ا / م م ( اے ایف پی، روئٹرز)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں