1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق میں تازہ تشدد ، کم از کم 21 افراد ہلاک

Kishwar Mustafa16 اگست 2012

عراق میں آج جمعرات کو ایک درجن بم دھماکوں اور مختلف شہروں اور قصبوں میں سلسلہ وار فائرنگ کے نتیجے میں کم از کم 21 افراد ہلاک اور متعدد دیگر زخمی ہو گئے ہیں۔

تصویر: Reuters

عراق میں گزشتہ دسمبر میں امریکی فوجیوں کے انخلاء کے بعد سے اب تک کے یہ سنگین ترین واقعات ہیں۔ اب تک کسی نے بھی ان واقعات کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔

القاعدہ کے مقامی گروہ ’ دی اسلامک اسٹیٹ آف عراق‘ نے اس سے پہلے گزشتہ جون اور جولائی میں میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے انہیں اپنی نئی کارروائی کا حصہ قرار دیا تھا۔ سکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ عراق کے پڑوسی ملک شام کی موجودہ صورتحال جنگجوؤں کو مزید تقویت بخش رہی ہے۔ شام کا بحران تمام خطے پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ عسکریت پسندوں، جنگجوؤں، پیسوں اور ہتھیاروں کا داخلی بہاؤ عراق میں خونریزی کی تازہ ترین لہر کا سبب بن رہا ہے۔ عراقی باغی امریکا کے ساتھ طویل جنگ کے بعد ایک بار پھر مضبوط ہوکر کھوئے ہوئے علاقوں کو واپس حاصل کرنے کے عزم کا اظہار کر رہے ہیں۔

عراق میں سرگرم امریکی بلیک واٹرتصویر: AP

رواں ہفتے کے اواخر میں ماہ رمضان کے اختتام کی تیاریوں کے طور پر عراق میں سکیورٹی انتظامات سخت کر دیے گئے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ یہی وہ وقت ہے، جب باغی ایک بڑا حملہ کر سکتے ہیں۔ آج جمعرات کو ہونے، والے متعدد دہشت گردانہ حملوں میں دارالحکومت بغداد میں ہونے والا کار بم حملہ بھی شامل ہے، جو عراقی شیعہ آبادی والے علاقے حسینیہ میں ہوا ۔ پولیس اور ہسپتال ذرائع کے مطابق اس کے نتیجے میں 6 شہری ہلاک اور 28 دیگر زخمی ہوگئے۔ اُدھر بغداد سے شمال کی طرف شہر تاجی میں ایک کار بم کی زد میں آکر 9 افراد شدید زخمی ہوئے۔

بغداد سے 250 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع تیل کے ذخائر سے مالا مال شہر کرکوک دراصل وفاقی حکومت اور عراق کے خود مختار علاقے کردستان کے باشندوں کے درمیان بڑے تنازعہ کا باعث بنا ہوا ہے۔ فریقین کردستان کو اپنے کنٹرول والا علاقہ سمجھتے ہیں۔

شمالی عراق میں ایک شامی پناہ گزین کا کیمپتصویر: Reuters

گزشتہ رات شہر بعقویہ اور فلوجا میں پولیس چوکیوں پر ہونے والے حملوں میں 6 پولیس اہلکار ہلاک اور دیگر 13 زخمی ہوئے۔ ان واقعات کی تصدیق پولیس اور ہسپتال کے ذرائع نے کی ہے۔

24 گھنٹے کے اندر عراق کے دیگر علاقوں سے سلسلہ وار فائرنگ اور کام بم حملوں کی اطلاعات بھی ملتی رہیں۔ گاڑیوں میں مقناطیس کے ذریعے نصب کیے جانے والے دھماکا خیر مواد کے پھٹنے کی بھی اطلاع ہے۔ عراق میں شیعہ حکومت کے خلاف سنی مسلم انتہا پسندوں کی مزاحمت روز بروز زیادہ خونریز اور ہلاکت خیز ہوتی جا رہی ہے۔

مبینہ طور پر القاعدہ سے منسلک مقامی گروہ ’ دی اسلامک اسٹیٹ آف عراق‘ کے باغیوں نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ اگست میں ان کے جنگجوؤں نے اپنے ساتھیوں کو آزاد کروانے کے لیے بغداد میں قائم انسداد دہشت گردی کے ایک یونٹ پر بھی حملہ کیا تھا۔

2006 ء اور 2007 ء میں عراق میں شیعہ سنی فسادات کے نام پر ہزاروں جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔

km/ab (Reuters)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں