ترک فضائیہ نے عراق کے شمالی حصے میں بمباری کرتے ہوئے انچاس کرد باغیوں کو ہلاک کر دیا ہے۔ انقرہ حکومت کے مطابق کردستان ورکرز پارٹی سے وابستہ یہ جنگجو ترکی میں ایک بڑے حملے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز نے یکم فروری بروز جمعرات بتایا ہے کہ ترک فضائیہ نے عراق کے شمالی علاقوں میں کرد باغیوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔ ترک فوج نے تصدیق کر دی ہے کہ شمالی عراق میں کالعدم کردستاں ورکرز پارٹی کے جنگجوؤں کو نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں کم ازکم انچاس جنگجو ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہو گئے۔
جمعرات کے دن جاری کردہ ایک فوجی بیان کے مطابق یہ کارروائی رواں ہفتے کے آغاز پر کی گئی۔ پیر کے دن کی گئی اس بمباری کے بارے میں مزید معلومات فراہم کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ اس ’دہشت گرد‘ گروہ کے متعدد ٹھکانوں اور اسلحہ ڈپوؤں کو تباہ کر دیا گیا۔ ترک فوج کے مطابق مجموعی طور پر اس باغی تحریک کے انیس ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔
روئٹرز کے مطابق ترک فوج کے تحریری بیان میں کہا گیا ہے کہ دو فضائی کارروائیاں زاپ ریجن اور ہرکوک ریجن میں کی گئیں۔ اس بیان کے مطابق کامیاب فضائی کارروائی کرتے ہوئے مطلوبہ اہداف حاصل کر لیے گئے۔ مزید کہا گیا ہے کہ اس باغی تحریک کے جنگجو ترک سرحدی علاقوں میں حملوں کی منصوبہ بندی میں تھے۔
ترک فوج ماضی میں بھی شمالی عراق میں مبینہ طور پر محفوظ ٹھکانے بنائے ہوئے ان کرد باغیوں کے خلاف کارروائی کر چکی ہے۔ تاہم شامی علاقے عفرین میں بیس جنوری کو شروع ہونے والی ترک افواج کی متنازعہ فوجی کارروائی کے بعد پہلی مرتبہ عراق میں بھی ان باغیوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
انقرہ حکومت کا کہنا ہے کہ شام میں فعال کرد ملیشیا وائی پی جی بھی کردستان ورکرز پارٹی سے وابستہ ہیں۔
کردستان ورکرز پارٹی سن انیس سو اسی کی دہائی سے جنوب مشرقی ترکی میں آزادی کے لیے مسلح جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس جنگجو گروہ اور سکیورٹی فورسز کے مابین ہونے والی جھڑپوں اور دیگر پرتشدد کارروائیوں کے باعث کم ازکم چالیس ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
ترکی کے علاوہ یورپی یونین اور امریکا نے بھی کردستان ورکرز پارٹی کو دہشت گرد گروپ قرار دے رکھا ہے۔
شام میں ترک فوجی آپریشن، جرمنی میں کردوں کے احتجاجی مظاہرے
ترکی کی جانب سے شمالی شام میں کرد اکثریتی علاقوں میں کیے جانے والے عسکری آپریشن کے تناظر میں جرمنی میں آباد کرد نسل کے باشندوں کے احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Becker
کردوں کے مظاہرے
جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں شام اور عراق کے کرد علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کرد فورسز کے خلاف ترکی کے عسکری آپریشن پر سراپا احتجاج ہیں۔ مظاہرین میں کردوں کی اپنی ایک علیحدہ ریاست کا مطالبہ کرنے والے بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Becker
عفرین میں ترک فوجی آپریشن
ترک فورسز شام کے کرد اکثریتی علاقے عفرین اور اس کے گرد و نواح میں ٹینکوں اور بھاری توپ خانے سے اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ علاقہ شامی کرد ملیشیا وائی پی جی کے قبضے میں ہے، جو ان کرد جنگجوؤں نے امریکی تعاون سے شدت پسند تنظیم داعش کے قبضے سے آزاد کرایا تھا۔
ایردوآن اور میرکل پر تنقید
مظاہرین جرمنی کی جانب سے ترکی کو فروخت کیے جانے والے ہتھیاروں پر بھی تنقید کر رہے ہیں۔ ترک صدر ایردوآن تمام تر بین الاقوامی دباؤ کے باوجود کہہ چکے ہیں کہ وہ شام میں کرد ملیشیا گروپوں کے خلاف عسکری آپریشن جاری رکھیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Jensen
بون میں بھی مظاہرے
جرمنی میں کرد باشندوں کی جانب سے شہر بون میں اقوام متحدہ کے ایک مرکزی دفتر کے قریب بھی مظاہرہ کیا گیا۔ یہ مظاہرین ترکی کی جانب سے شامی علاقوں میں کرد ملیشیا گروپوں کے خلاف آپریشن کی فوری بندش کا مطالبہ کر رہے تھے۔
تصویر: DW/C. Winter
صدر ایردوآن کا سخت موقف
صدر ایردوآن کا کہنا ہے کہ امریکا کرد فورسز کی امداد بند کرے۔ ترکی امریکی حمایت یافتہ کرد ملیشیا گروپ وائی پی جی کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے۔ انقرہ کا موقف ہے کہ یہ عسکریت پسند کالعدم تنظیم کردستان ورکرز پارٹی ہی کا حصہ ہیں، جو ایک طویل عرصے سے ترکی میں کرد اکثریتی علاقوں کی باقی ماندہ ترکی سے علیحدگی کے لیے مسلح جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/B. Ozbilici
کرد فورسز کو امریکی امداد کی بندش کا ترک مطالبہ
ترک حکومت نے امریکا سے کہا ہے کہ وہ کرد ملیشیا گروپوں کو ہتھیاروں کی فراہمی فوری طور پر بند کرے۔ دوسری جانب واشنگٹن حکومت نے ترکی کو متنبہ کیا ہے کہ وہ ایسی کارروائیوں سے باز رہے، جن سے ترک اور شام میں موجود امریکی فورسز کے درمیان کسی ممکنہ ٹکراؤ کی صورت حال پیدا ہونے کا خطرہ ہو۔