عراق میں جاری ڈیڈلاک ختم، نئی حکومت کی تشکیل
11 نومبر 2010نئی حکومت کے قیام کے لیےاتفاق رائے پیدا کرنے کی غرض سے مذاکرات کا سلسلہ سوموار کو عراق کے شمالی شہر اربیل میں شروع ہوا تھا۔ کرد علاقائی صدر مسعود بارزانی کی دعوت پر ہونے والے ان مذاکرات میں عراقی وزیراعظم نوری المالکی اور ان کے سیاسی حریف سابق وزیر اعظم ایاد علاوی کےعلاوہ شیعہ اور کرد اتحادوں کے قائدین نے شرکت کی تھی۔ علاقائی صدر مسعود بارزانی نے اس معاہدے کو " قومی شراکت " کا نام دیا ہے۔
بارزانی کا کہنا تھا کہ مجوزہ فارمولے کے تحت شیعہ سیاسی دھڑے سے وابستہ نوری المالکی بدستور وزیراعظم رہیں گے، جبکہ سنی سیاسی اتحاد العراقیہ کو نئی حکومت میں پارلیمان کے اسپیکر کا عہدہ دیا گیا ہے۔اس کے علاوہ العراقیہ اتحاد کو وزارت خارجہ بھی دی جائے گی اور اسے دفاع اور معیشت کے امور میں بعض خصوصی اختیارات حاصل ہوں گے۔ اس مجوزہ فارمولے کے تحت کُرد رہنما جلال طالبانی عراق کے صدر ہوں گے۔
سابق وزیراعظم ایادعلاوی کی قیادت میں العراقیہ اتحاد کا اجلاس آج جمعرات کو ہو رہا ہے، جس میں نئےاسپیکر کی نامزدگی کے حوالے سے اختلافی امور پر غور کیا جائے گا۔ عراقی پارلیمان کا اجلاس بھی آج ہی طلب کیا گیا ہے، جس میں نئے اسپیکر اور دو ڈپٹی اسپیکرز کا انتخاب کیا جائے گا۔
نوری المالکی کی دعوۃ پارٹی کے ایک سینیئر لیڈر حیدر العبادی کا کہنا ہے کہ ان کے اتحاد نے جمعرات کو کردوں سمیت پارلیمان کے اجلاس میں شرکت کا فیصلہ کیا ہے اور اگر دوسرے اتحاد نہیں بھی شامل ہوتے تو وہ اجلاس میں شریک ہوں گے۔
عراق میں سات مارچ کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں کوئی بھی سیاسی اتحاد واضح اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہا تھا۔ سابق وزیر اعظم ایاد علاوی کی قیادت میں سنی اور شیعہ جماعتوں پر مشتمل اتحاد نے سب سے زیادہ 91 نشستیں حاصل کی تھیں اور نوری المالکی کی قیادت میں اتحاد 89 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہا تھا لیکن ان میں سے کوئی بھی اتحاد تین سو پچیس کے ایوان میں حکومت بنانے کے لیے مطلوبہ 163 ارکان کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہا تھا۔
عراقی آئین کے تحت ارکان پارلیمان کو سب سے پہلے اسپیکر اور دو ڈپٹی اسپیکرز کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔
رپورٹ: امتیازاحمد
ادارت: افسراعوان