عراق میں جہادیوں کی پرتشدد کارروائیاں، چار صحافی بھی ہلاک
5 نومبر 2014خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے موصل سے آمدہ رپورٹوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ ان جہادیوں نے مخالف قبائل کے درجنوں افراد سمیت چار صحافیوں کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔ ان شدت پسندوں نے گزشتہ ماہ ہی بارہ صحافیوں کو اغوا کیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں نے جون میں موصل پر قبضہ حاصل کرنے کے بعد سے اپنے مخالفین کا ’قتل عام‘ شروع کر رکھا ہے۔
ڈی پی اے نے مقامی طبی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ جہادی گزشتہ چند مہینوں کے دوران ڈاکٹرز اور وکلاء کے علاوہ پولیس اور فوج کے درجنوں سپاہیوں کو بھی ہلاک کر چکے ہیں۔ اس جہادی گروہ نے ایسی ویڈیوز بھی جاری کی ہیں، جن میں چار غیر ملکی افراد کے سر قلم کرتے دکھایا گیا ہے۔
دوسری طرف صوبہ انبار میں بھی ان جہادیوں نے البوانمر نامی مخالف قبیلے کے افراد کو نشانہ بنانے کا عمل جاری رکھا ہوا ہے۔ اسلامک اسٹیٹ کے خلاف بغداد حکومت کا ساتھ دینے والے اس قبیلے کے مزید چوبیس افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاع موصول ہوئی ہے۔ مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق جنگجوؤں نے ان افراد کو ہلاک کر کے ان کی لاشیں رمادی کے ویران علاقے میں واقع ایک کنویں میں پھینک دی ہیں۔
عراقی ہیومن رائٹس کی منسٹری اور اس قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد نے بتایا ہے کہ جہادی اب تک اپنی پرتشدد کارراوئیوں میں البوانمر نامی قبیلے سے تعلق رکھنے والے ساڑھے تین سو افراد کا ’قتل عام‘ کر چکے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ جہادی کوبانی ان 153 کرد بچوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں، جنہیں انتیس مئی کواغوا کیا گیا تھا۔
دریں اثناء پینٹا گون نے بتایا ہے کہ گزشتہ تین ماہ سے جاری فضائی کارروائیوں کے نتیجے میں جہادیوں کو کافی زیادہ نقصان پہنچایا گیا ہے۔ منگل کو امریکی محکمہ دفاع کے ترجمان ریئر ایڈمرل جان کربی نے اعتراف کرتے ہوئے یہ ضرور کہا کہ ابھی تک جنگجوؤں کو مکمل طور پر شکست نہیں دی جا سکی ہے۔
ایک اور تازہ پیشرفت میں نیوزی لینڈ کے وزیر اعظم نے عراقی جہادیوں کے خلاف جاری عالمی کارروائی میں براہ راست حصہ لینے سے انکار کر دیا ہے۔ بدھ کے دن وزیر اعظم جان کی نے واضح کیا کہ ان کی حکومت عراقی فوج کی تربیت کا کام کرنے کے لیے تیار ہے تاکہ وہ اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں کے خلاف مؤثر کارروائی کر سکیں۔