عراق میں خودکش حملے اور سیاسی منظر نامہ
3 مارچ 2010سات مارچ کے پارلیمانی انتخابات سے صرف چار دن پہلے ہونے والے ان حملوں نے عوام میں شدید خوف وہراس پیدا کردیا ہے۔ ساتھ ہی اس خدشے نے بھی جنم لیا ہے کہ انتخابات سے پہلے یا رائے شماری والے دن بھی اس طرح کے مزید حملے ہوسکتے ہیں۔
عراق میں سخت حفاظتی اقدامات کے باوجود دو خودکش حملہ آور پولیس اسٹشنز میں بارود سے بھری گاڑیاں لے کر گھسنے میں کامیاب ہوگئے جبکہ پولیس کی وردی میں ملبوس تیسرے حملہ آورنے شہر کے اُس مرکزی اسپتال کو نشانہ بنایا جہاں دوخودکش دھماکوں کے زخمیوں کا لایا جارہا تھا۔
ان دھماکوں نے اتوار کے روز ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں بڑے پیمانے پر لوگوں کی شرکت کو کسی حد تک مشکوک بنا دیا ہے۔ یہ انتخابات نہ صرف امریکہ اور اسکے مغربی اتحادیوں کے لئے اہم ہیں بلکہ ایران، شام، ترکی اور سعودیہ عرب سمیت خطے کے کچھ اور ممالک بھی اس رائے شماری پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔
عراق کے ایوانِ نمائندگان کی 325 نشستوں کے لئے سینکڑوں سیاسی، مذہبی اور علاقائی جماعتیں میدان انتخابات میں ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ سابق عراقی صدرصدام حسین کے دورمیں سیاسی منظر میں دوسرے درجے پر نظرآنے والی شعیہ اکثریت ان انتخابات میں اقتداد کے ایوانوں کے زیادہ قریب رہے گی۔
لیکن کئی اور سیاسی مبصرین کے مطابق شیعہ جماعتوں کے سیاسی اتحاد کی علامت ’یونائیٹد عراقی الائنس‘ میں اختلافات اور تقسیم کے باعث کے اس فرقہ کی سیاسی حیثیت کسی حد تک کمزور ہوگئی ہے۔ دسمبر 2005 کے انتخابات کے بعد اس الائنس نے ابتدائی طور پر نوری المالکی کی حکومت کی حمایت کی تھی۔
لیکن مارچ 2008 میں مالکی حکومت نے بصرہ سے مقتدیٰ الصدر کی طاقت توڑنے کے لئے جب عراقی فوج کا استعمال کیا، اس الائنس میں دراڑیں پڑنا شروع ہوگئیں۔ یہ تقسیم 2009 کے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے وقت اور بھی شدید ہوگئی جب نوری المالکی نے اپنے شعیہ اتحادیوں پر انحصار کرنے کے بجائے ایک نیا سیاسی اتحاد بنا ڈالا۔
شعیوں کے بعد عراق میں کردوں کو اب دوسری بڑی سیاسی قوت سمجھا جاتا ہے۔ صدام کے سیاسی منظر نامے سے ہٹنے کے بعد، عراقی کردوں کو ملک میں وفاقی حکومت کی تشکیل میں ایک کلیدی کردارکا موقع مل گیا ہے۔ کُردوں نے گزشتہ کچھ سالوں میں اپنے سیاسی پتے بڑے چالاکی سے کھلیے اور 1920 میں جدید عراق کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد پہلی بار ایک کرد لیڈر ’جلال طالبانی‘ اپریل 2005 ء میں عراق کے صدر بنے۔
لیکن کئی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ کردوں کی سیاسی جماعتوں میں اندرونی تقسیم کے باعث 7 مارچ کے انتخابات کے بعد اُن کا کردار اتنا موثر نہیں رہے گا جتنا کہ یہ گزشتہ پانچ سالوں میں تھا۔ کردستان ڈیمویٹک پارٹی اور پیٹریاٹک یونین آف کردستان کے علاوہ دوسری کردش سیاسی جماعتیں بھی اب منظرِعام پر آرہی ہیں، جس سے کردوں میں سیاسی تقسیم بھی واضح ہوتی جارہی ہے۔
عراق کی بڑی ُسنی سیاسی جماعتوں نے 2005 کے پارلیمانی انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔ اس مرتبہ بھی عراق میں پانچ سو سے زائد امیدواروں کو انتخابات لڑنے سے روک دیا گیا ہے۔ اس میں دو امیدوار بڑے ُسنی سیاسی رہنما ہیں۔ سنیوں کی دوسری تنظیمیں کچھ دیگر سیاسی جماعتوں کے اتحاد میں شامل ہیں، لیکن مجموعی طور پر وہ کوئی بڑی سیاسی قوت کے طور پر ابھر نہیں سکیں ہیں۔
رپورٹ: عبدالستار
ادارت: کشورمصطفیٰ