عراق میں خودکُش بمبار خواتین
6 اگست 2008القاعدہ کی خونریز کارروائیوں میں اب خواتین خود کُش حملہ آوروں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ عراق میں ہونے والے واقعات میں اب تک کوئی تیئیس واقعات ایسے ہیں کہ جن میں خودکش بمبمار خواتین تیھں۔ ان میں سے سات واقعات سن دو ہزار سات میں رونما ہوئے۔ اِس سال کے پہلے چھ ماہ میں سولہ خواتین نے خودکُش بمباروں کا روپ دھارا۔ مثال کے طور پر گزشتہ ماہ اٹھائیس تاریخ کو تین خواتین نے بارود سے بھری بیلٹ پہن کر خود کو ہجوم میں اڑا دیا اور اپنے ساتھ کئی دوسری انسانوں کی جان لی۔
عراق کا منظر نامہ دہشت گردانہ واقعات اور فرقہ وارانہ فسادات سے عبارت ہے اور یہ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ امریکی اورعراقی فوجیوں کے مختلف مشن کے نتیجے میں سارے عراق میں غم و عصے کی لہر پیدا ہو گئی ہے۔ عراق کے کئی صوبوں میں خواتین کا کہنا ہے کہ امریکی اورعراقی فوج کی کارروائیوں کے نتیجے میں انہیں اُن کے شوہروں، بھائیوں، بیٹوں اور دوسرےعزیر و اقارب کی لاشوں کے سوا کچھ بھی نہیں ملا اور اسی بناہ پر ان کئی خواتین انتقام لینے پر مجبور ہو رہی ہیں۔
اِس بات کی تائید کرتے ہوئے عراقی خواتین کے گروپ امل کی لیڈر حینا ادوار نے کہا کہ ایک طرف تو متشددانہ واقعات سے نفرت اور انتقام کو شدت مل رہی ہے جبکہ دوسری طرف عراق کے شمالی حصے میں القاعدہ ایک بار پھر زور پکڑ رہی ہے۔ اِسی مناسبت سے دیالہ صوبے میں عراقی فوج امریکی معاونت کے ساتھ ایک بڑے آپریشن میں مصروف ہے۔
دیالہ صوبے میں سکیورٹی کمیٹی کی کارکن سیجا عزیز کا خیال ہے کہ القاعدہ نے خواتین خودکُش حملوں کی باقاعدہ پلاننگ کرتےہوئے نوجوان خواتین اور لڑکیوں کو خودکش کارروائیوں کے لئے راغب کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ عراق کے فوجی ذرائع اِس صورت حال پر انتہائی پریشان ہیں کیونکہ اِس سے عسکریت پسندوں کو سرکاری اور امریکی فوج پر برتری حاصل ہو سکتی ہے۔ اِسی معاملے کی حساسیت کی وجہ سے دیالہ صوبے میں سکیورٹی چیک اپ کے سلسلے میں خواتین کی تعیناتی شروع کی گئی ہے۔ اِن خواتین کو دخترانٍ عراق کا نام دیا گیا ہے۔ حکومت کو یقین ہے کہ اِس نئی پلاننگ سے انتہاپسندوں کی جانب سے خواتین خودکُش بمباروں کی حوصلہ شکنی ہو گی۔