عراق میں سلسلہ وار بم دھماکے، 17 افراد ہلاک
23 جولائی 2012عراقی وزارت داخلہ اور طبی ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ اتوار کے روز ہونے والے بم دھماکوں میں کم از کم 17افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ طبی ذرائع نے بتایا ہے کہ ان دھماکوں میں سو سے زائد افراد زخمی ہیں۔ تین ہفتوں کے دوران عراق میں یہ سب سے خونریز ترین دن تھا۔
وزارت داخلہ کے مطابق سب سے خونریز حملہ محمودیہ میں ہوا، جہاں وقفے وقفے سے ہونے والے دوکار بم دھماکوں میں دس افراد ہلاک ہوئے۔ اسی طرح دہشت گردوں نے المدائن، موصل، رمادی، نجف کو بھی نشانہ بنایا۔ اس سے قبل القاعدہ سے تعلق رکھنے والی ایک عراقی گروپ نے اپنے پیغام میں جیلوں میں قید اپنے ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے ججوں اور سرکاری وکلاء کو نشانہ بنانے کی دھمکی دی تھی۔
محمودیہ میں دہشت گردوں نے مرکزی بازار کو نشانہ بنایا۔ دوہرے بم دھماکوں میں دس ہلاکتوں کے علاوہ 36 افراد زخمی ہوئے۔ محمودیہ میں سنی اور شیعہ دونوں بڑی تعداد میں آباد ہیں اور اسی وجہ یہ شہر گزشتہ دنوں کے دوران شدید فرقہ ورانہ فسادات کی لپیٹ میں بھی آتا رہا ہے۔
دارالحکومت بغداد سے جنوب مشرق کی جانب واقع شہر المدائن میں سڑک کے کنارے نصب بم افطار سے چند منٹوں کے پہلا پھٹا، جس سے چھ افراد ہلاک جبکہ 13 زخمی ہوئے۔ اسی طرح سنی اکثریت والے صوبے انبار کے شہر رمادی میں دو مختلف مقامات پر بم حملے ہوئے۔ ان میں نو افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ان میں سے پانچ پولیس اہلکار تھے۔
موصل میں پولیس کے ایک افسر نے بتایا کہ شہر میں پولیس کے مرکز کے قریب نصب بم کے پھٹنے سے ایک اہلکار جاں بحق ہوا جبکہ 15 عام شہری زخمی ہوئے۔ اسی طرح نجف کے ایک ریستوران میں ہونے والے بم دھماکے میں 23 افراد زخمی ہوئے، جن میں سے چار کی حالت نازک ہے۔ اس سے قبل عراق میں3 جولائی کو ہونے والے بم دھماکوں میں 39 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔
عراق میں دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے تعلق رکھنے والے گروپ اسلامک اسٹیٹ آف عراق کے سربراہ ابوبکر البغدادی نے اپنے ایک آڈیو پیغام میں کہا ہے کہ انُ کی تنظیم اب سرکاری وکلاء اور ججوں کو نشانہ بنائے گی۔ ساتھ ہی انہوں نے سنی قبائل سے تعاون کی بھی درخواست کی ہے۔’’ ہم ایک نئے مرحلے کا آغاز کر رہے ہیں۔ ہماری پہلی ترجیح مسلمان قیدیوں کو آزاد کرانا ہے۔ اس کے بعد ہم ججوں، تفتیش کاروں اور ان کی نگرانی کرنے والے افراد کا پیچھا کرتے ہوئے انہیں ختم کریں گے‘‘۔ تاہم یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی کہ پیغام ابوبکر البغدادی کی ہی آواز میں تھا۔
ai / sks (AFP)