1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق میں سلسلے وار بم دھماکوں سے ہلاک شدگان کی تعداد 68 ہو گئی

6 جنوری 2012

عراق میں سلسلہ وار بم دھماکوں میں ہلاکتوں کی تعداد 68 ہو گئی ہے۔ حکام کے مطابق تمام حملے شیعہ آبادی والے علاقوں میں ہوئے۔ طبی ذرائع نے بتایا ہے کہ 45 افراد نصیریا جبکہ بقیہ افراد بغداد کے دوسرے علاقوں میں ہلاک ہوئے۔

تصویر: Reuters

عراق میں گزشتہ ماہ سے ایک نیا سیاسی بحران دیکھنے میں آرہا ہے۔ اسی دوران تشدد کی یہ دوسری بڑی کارروائی ہے۔ اس سے قبل 22 دسمبر کو ملک کے مختلف علاقوں میں ہونے والے بم دھماکوں میں 67 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ حالیہ بم دھماکوں میں 68 ہلاکتوں کے علاوہ ایک سو سے زائد افراد زخمی بھی ہیں۔ عراق میں سیاسی بحران اُس وقت شروع ہوا جب ملک کے شيعہ وزير اعظم نوری المالکی نے سنی نائب صدر طارق الہاشمی کی گرفتاری کا مطالبہ کيا اور ان پر قاتل گروہوں کی سرپرستی کا الزام عائد کیا۔ اس واقعے کے فوراً بعد عراق میں فرقہ ورانہ تناؤ بڑھ گیا اور شیعہ آبادی والے علاقوں میں بم دھماکے شروع ہو گئے۔

عراقی حکام طارق الہاشمی کو ملک میں بدامنی کو ہوا دینے کا ذمہ دار بھی قرار دے رہے ہیں۔ واشنگٹن حکام نے دہشت گردی کی ان وارداتوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ عراق کو پرانے دور کی جانب لے جانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ساتھ ہی ایران کی جانب سے ان کارروائیوں پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔ عراق پارلیمنٹ کے سنی اسپیکر اسامہ النجفی نے بھی فوری طور پر ان حملوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ جمعرات کے روز ہی النجفی اور وزیراعظم نوری المالکی نے بات چیت کرتے ہوئے سیاستدانوں پر زور دیا کہ وہ آپس کی تلخیاں ختم کر دیں۔

عراق میں گزشتہ ماہ سے سیاسی بحران کا شکار ہے

ایک مزدور احمد خالاف نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت میں کہا کہ سیاست دان حکومت کے حصول کے لیے لڑ رہے ہیں اور اس کی قیمت عوام کو ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ ’’ اس میں ہماری کیا غلطی ہے کہ طارق الہاشمی یا کوئی اور مطلوب ہے؟ ہم کیوں اس کی سزا بھگتیں؟‘‘

اطلاعات کے مطابق جمعرات کو سب سے زیادہ ہلاکیتں جنوبی شہر نصیریا میں ہوئیں۔ ہسپتال ذرائع نے بتایا ہے کہ ان کے پاس 45 افراد کی لاشیں لائی گئیں۔ یہ افراد نصیریا سے پیدل کربلا کی جانب جا رہے تھے۔ اسی طرح بغداد کے شمالی علاقوں میں پانچ بم دھماکے ہوئے، جن میں 23 افراد کی جانیں گئیں۔ اس دوران شہریوں نے پولیس اور سکیورٹی حکام کے خلاف شدید غصے کا اظہار کیا۔

عراقی پارلیمنٹ میں سنی فرقے کی سب سے بڑی سیاسی جماعت العراقیہ نے اسمبلی کا بائیکاٹ کر رکھا ہے۔ اس سے قبل وزیراعظم نوری المالکی نے دھمکی دی تھی کہ اگر العراقیہ سے تعلق رکھنے والے وزارء نے بائیکاٹ ختم نہ کیا تو انہیں کابینہ سے نکال دیا جائے گا۔ تا ہم اب ان کی جانب سے دھمکیوں کا سلسلہ بھی بند ہو گیا ہے۔

رپورٹ: عدنان اسحاق

ادارت : شادی خان سیف

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں