1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق میں سکیورٹی اور سیاسی بحرانوں میں شدت

کشور مصطفیٰ15 فروری 2015

شورش زدہ عرب ریاست عراق ایک بار پھر سنگین سیاسی بحران کی لپیٹ میں آتا دکھائی دے رہا ہے اور مزیدغیر محفوظ ہونے لگا ہے۔ آج دارالحکومت میں ایک اہم سنی قبائلی لیڈر کو اُس کے بیٹے اور سات محافظوں سمیت ہلاک کر دیا گیا۔

تصویر: Reuters/Khalid al-Mousily

اتوار کے روز عراقی دارالحکومت میں ہلاک ہونے والے سنی لیڈر کا نام شیخ قاسم سویدی الجنابی بتایا گیا ہے۔ ایک جعلی چیک پوسٹ پر شیخ جنابی کو اُن کے رکن پارلیمنٹ اور بھتیجے زید الجنابی کے ہمراہ اغوا کیا گیا تھا۔ زید الجنابی کو اغواکاروں نے رہا کر دیا اور بعد ازاں شیخ قاسم الجنابی کو بیٹے سمیت قتل کر دیا گیا۔ اُن کی لاشیں مقتول محافظوں کے ساتھ شمالی بغداد کی النِدا مسجد کے قریب سے ملی ہیں۔ رکن پارلیمنٹ زید الجنابی کے مطابق اغوا کار انہیں بغداد کے شیعہ علاقے صدر میں لے گئے تھے۔ سنی لیڈر کا قافلہ جنوبی بغداد کے علاقے لطیفیہ سے مرکزی علاقے کی جانب روانہ تھا۔

موصل پر اسلامک اسٹیٹ کا مکمل قبضہ ہےتصویر: picture-alliance/dpa

اہم مغربی صوبے انبار کی انتظامیہ نے انتباہ کیا ہے کہ اگر مغربی فورسز نے اپنے زمینی دستے تعینات نہ کیے تو یہ صوبہ مکمل طور پر شدت پسند سُنی جہادی گروپ اسلامک اسٹیٹ کے ہاتھوں میں چلا جائے گا۔ اتوار کو انبار کی مقامی کونسل کے رکن حمید الہاشم نے اخباری نمائندوں کو بیان دیتے ہوئے کہا،" صوبہ انبار ایک بڑے خطرے سے دوچار ہے۔ ہمارے پاس دو متبادل ہیں۔ ایک یہ کہ ہم دہشت گرد تنظیم کے آگے ہتھیار ڈال دیں، جس کا نتیجہ سینکڑوں شہریوں کی ہلاکت ہوگا یا پھر اس صوبے کی حفاظت کے لیے غیر ملکی فوج طلب کر لی جائے" ۔

حمید الہاشم نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ " عراقی سکیورٹی فورسز داعیش کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ ان حالات میں غیر ملکی فوج طلب کرنا ناگزیر ہو گیا ہے"۔ صوبہ انبار سُنی اکثریتی آبادی والا عراقی صوبہ ہے جو دارالحکومت سے 118 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ گزشتہ سال اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں نے عراق کے ایک وسیع علاقےپر قبضہ حاصل کر لیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق رواں ہفتے کے آغاز پر ہی اس سُنی عسکریت پسند گروپ نے انبار کے شہر البغدادی پر قبضہ کر لیا تھا جوعین الاسد ایئر بیس پر واقع ہے جہاں امریکی میرینز عراقی فوجیوں کو تربیت دیتے ہیں۔

عراق میں مسیحی آبادی کو بھی ہراساں کیا جا رہا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

اُدھر بغداد حکومت نے گزشتہ جمعے کو کہا تھا کہ اُسے غیر ملکی افواج کی ضرورت نہیں ہے تاہم اُس نے عالمی برادری سے مزید ہتھیار فراہم کرنے کی اپیل کی تھی تاکہ اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں کے خلاف جاری جنگ میں تیزی لائی جا سکے اور اسے موثر بنایا جائے۔

سُنی علاقوں میں انسانی حقوق کی پامالی میں اضافہ

اتوار کو ہیومن رائٹس واچ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ عراق میں حالیہ مہینوں کے دوران حکومت نواز شیعہ ملیشیا کی کازرروائیوں سے سُنی اکثریت والے علاقوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں غیر معمولی اضافہ کر دیا ہے۔ خاص طور سے بغداد سے شمال کی جانب 80 کلو میٹر کے فاصلے پر قائم رہائشی علاقے مقدادیہ کے رہائشیوں کو شیعہ ملیشیا نے اسلامک اسٹیٹ کے موصُل پر قبضہ حاصل کرنے کے فوراً بعد ظلم و ستم کا نشانہ بنانا اور ہراساں کرنا شروع کر دیا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ اس علاقے کے شہریوں کو اغوا، گھر بار چھوڑنے پر مجبور اور موت کی سزا دی جا رہی ہے۔

مغربی باشندوں کی عراقی کریسچن ملیشیا میں شمولیت

عراقی کریسچن گزشتہ برس موُصل کے اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں کے قبضے میں آنے کے بعد سے بہت زیادہ خوف کا شکار ہیں۔ موُصل کے کرسچن آبادی والے زیادہ تر علاقے اب داعیش کے قبضے میں ہیں جہاں اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں نے مسیحیوں کو الٹی میٹم دے رکھا ہے کہ وہ جزیہ ادا کریں یا اپنا مذہب تبدیل کر کہ اسلام قبول کر لیں۔ اس صورتحال کے باعث ایک بڑی تعداد میں کریسچن باشندے مختلف علاقے چھوڑ کر فرار ہو گئے ہیں۔ دریں اثناء امریکی فوجی مرکز فورٹ کارسن سے چار ہزار امریکی فوجی خلیجی ریاست کویت میں تعینات کیے جائیں گے۔ یہ فوجی آج کل میں روانہ ہو جائیں گے۔ ان فوجیوں کی تعیناتی امریکی صدر اوباما کی شام اور عراق میں سرگرام انتہا پسند اسلامک اسٹیٹ کے خلاف ممکنہ ملٹری ایکشن کے تناظر میں خیال کی جا رہی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں