عراق میں حکومت مخالف مظاہروں میں مزید شدت پیدا ہو گئی ہے۔ جنوبی عراق میں شروع ہونے والے مظاہروں میں ایک درجن افراد کی ہلاکت ہو چکی ہے۔
اشتہار
بغداد حکومت پر عدم اعتماد اور ناکافی شہری سہولتوں کے تناظر میں شروع ہونے والے مظاہروں میں اب ہر دن گزرنے کے بعد زیادہ شدت پیدا ہوتی جا رہی ہے۔ عراق کے بندرگاہی شہر بصرہ میں ایرانی قونصل خانے اور ایک تیل نکالنے والے مقام پر بھی مظاہرین نے جمعہ سات اگست کو دھاوا بولا۔ آئل فیلڈ پر مظاہرین نے چند ورکرز کو کچھ دیر کے لیے یرغمال بھی بنا کر رکھا۔
ایرانی قونصل خانے کی عمارت کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ ایران مخالف نعرہ بازی بھی کی گئی۔ عراقی سکیورٹی حکام کے مطابق مظاہرین کے حملے کے وقت ایرانی قونصل خانہ خالی تھا۔ عراقی وزارت خارجہ نے اس حملے کی شدید مذمت اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ قونصل خانے پر حملہ مظاہرین کے مطالبات کے ساتھ کوئی ربط نہیں رکھتا۔ انہوں نے ایسے اقدامات کو ناقابلِ قبول بھی قرار دیا۔
دوسری جانب ایرانی حکومت نے قونصل خانے پر حملے کی ذمہ داری عراقی حکومت پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس سفارتی عمارت کے تحفظ میں ناکام رہی ہے۔ ایران کی جانب سے بغداد حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ حملہ کرنے والوں کو شناخت کر کے جلد از جلد قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرے۔ تہران میں عراقی سفیر کو بھی طلب کر کے شکایتی مراسلہ تھمایا گیا۔
عراقی شہر بصرہ میں کئی غیر ملکی قونصل خانے موجود ہیں۔ ان میں امریکا اور روس بھی شامل ہیں۔ امریکی وزارت خارجہ نے سفارتی عملے کے خلاف عراقی مظاہرین کی کارروائیوں کی مذمت کی ہے۔ واشنگٹن نے حکومت اور مظاہرین سے کہا ہے کہ وہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام اختلافی معاملات کو مذاکراتی میز پر بیٹھ کر حل کر یں۔
عراقی شیعہ مسلمانوں کی سب سے محترم مذہبی شخصیت آیت اللہ علی السیستانی نے بھی ان مظاہروں کی ذمہ داری سیاستدانوں پر عائد کرتے ہوئے نئی پارلیمنٹ کے اراکین کو تلقین کی ہے کہ وہ جلد از جلد حکومت سازی کا عمل مکمل کرتے ہوئے اس سنگین مسئلے کو حل کرنے کی عملی کوششیں کرے۔
جنوبی عراق میں مظاہروں کو شروع ہوئے پانچ دن گزر گئے ہیں۔ اس دوران بصرہ میں کئی حکومتی عمارتوں پر حملوں کے بعد آگ بھی لگائی گئی۔ ان مظاہرین کی حکومتی سکیورٹی کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں میں ہونے والی ہلاکتیں ایک درجن ہو گئی ہیں۔ بصرہ میں شروع ہونے والے مظاہروں کے دور رس اثرات مجموعی عراقی معاشرت اور معیشت پر مرتب ہونے کا قوی امکان ہے۔
عراق: موصل میں خوف سے فرار ہوتے ہوئے شہری
عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل پر مکمل قبضے کے لیے عراقی فورسز دن رات حملوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہزاروں افراد متاثرہ علاقے چھوڑ کر فرار ہو رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/G. Tomasevic
موصل کے مغربی حصے پر قبضے کے لیے اس فوجی آپریشن کا آغاز انیس فروری کو کیا گیا تھا لیکن خراب موسم اور داعش کی طرف سے مزاحمت کے بعد یہ سست روی کا شکار ہو گیا۔ اتوار کے روز سے عراقی فورسز اس حصے پر قبضے کے لیے اپنی بھرپور کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
تصویر: Reuters
عراقی فورسز نے ملک کے دوسرے سب سے بڑے شہر موصل کے مغربی حصے میں مزید کامیابیاں حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے جبکہ مغربی موصل میں جاری اس جنگ کی وجہ سے تقریباﹰ پچاس ہزار افراد یہ علاقہ چھوڑ کر فرار ہو چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/S. Salem
موصل کو دہشت گرد تنظیم داعش سے آزاد کرانے کے لیے کارروائی جاری ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق اس دوران موصل کے بچوں کی ایک بڑی تعداد دہشت زدہ ہو کر رہ گئی ہے۔
تصویر: Reuters/G. Tomasevic
ان بچوں کے دہشت زدہ ہونے کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے سامنے اپنے رشتہ داروں یا اہل محلہ کو بے دردی سے مرتے اور قتل ہوتے دیکھا ہے۔
تصویر: Reuters/G. Tomasevic
فلاحی اداروں سے منسلک افراد کا کہنا ہے کہ موصل کے متاثرہ بچوں کی ذہنی تربیت ضروری ہے کیونکہ ان میں سے زیادہ تر شدید صدمے کا شکار ہیں:’’ کچھ بچے سکتے میں بھی ہیں، اچانک رو بھی پڑتے ہیں اور چیختے چلاتے ہیں جبکہ کچھ کا رویہ انتہائی جارحانہ ہے‘‘۔
تصویر: Reuters/S. Salem
داعش کے خلاف بغداد حکومت کا فوجی آپریشن جوں جوں آگے بڑھ رہا ہے، توں توں اس سے زمین کا ماحول تباہ ہو رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ آلودگی انسانوں کے لیے کئی برسوں تک مضر صحت رہے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
موصل پر قبضے کی مہم میں داعش نے تیل کے کنوئیں کو آگ لگانے کے علاوہ گندھک کی ایک فیکٹری کو بھی آگ لگا دی تھی۔ آگ اور پانی کی آلودگی کے ساتھ فضا میں تباہ ہونے والی عمارتوں سے اٹھنے والی زہریلی گرد اور خاک، ہتھیار اور جنگی آلات بھی موصل اور گردونواح کے لوگوں کی جانوں کے لیے خطرے کا باعث ہوں گے۔
تصویر: Reuters/World Press Photo Foundation/The New York Times/S. Ponomarev
موصل میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی رپورٹوں کے بعد عراق میں ہیومینیٹیرین کوآرڈینیٹر لیزا گرانڈے کا کہنا تھا کہ کیمیائی ہتھیاروں کا مبینہ استعمال جنگی جرم کے زمرے میں آسکتا ہے اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ گرانڈے کے مطابق، ’’یہ انتہائی خوفناک ہے‘‘۔
تصویر: Reuters
امدادی گروپوں کے اندازوں کے مطابق موصل کے مغربی حصے میں تقریباﹰ ساڑھے چھ لاکھ شہری موجود ہیں اور ان میں سے بچوں کی تعداد تقریبا ساڑھے تین لاکھ بنتی ہے۔
تصویر: Reuters/S. Salem
عراقی فورسز نے ملک کے دوسرے سب سے بڑے شہر موصل کے مغربی حصے میں مزید کامیابیاں حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے جبکہ امریکی عسکری حکام کے مطابق داعش کے غیر ملکی عسکریت پسند یہ علاقہ چھوڑ کر فرار ہونے کی کوششوں میں ہیں۔
تصویر: Reuters/Z. Bensemra
موصل کو دریائے دجلہ نے تقسیم کر رکھا ہے۔ عراقی فورسز نے تین ماہ سے زائد کی لڑائی کے بعد جنوری میں موصل کے مغربی حصے پر تو قبضہ کر لیا تھا لیکن دریائے دجلہ کی دوسری جانب مغربی حصے کا کنٹرول ابھی تک داعش کے ہاتھوں میں ہے۔
تصویر: Reuters/G. Tomasevic
امریکی فضائیہ کے بریگیڈیئر جنرل میتھیو آئیلر کا کہنا تھا، ’’کھیل ختم ہو چکا ہے۔ وہ اپنی جنگ ہار چکے ہیں اور جو آپ اس وقت دیکھ رہے ہیں، وہ وقت حاصل کرنے کے طریقے ہیں۔‘‘ امریکی کمانڈر کے مطابق مغربی موصل کی لڑائی سے پہلے ہی داعش کے متعدد سرگرم لیڈر مار دیے گئے تھے۔
تصویر: Reuters/G. Tomasevic
داعش کے خودکش حملہ آوروں کو ابھی بھی خطرہ تصور کیا جا رہا ہے لیکن اب فی الحال ایسے دس حملہ آوروں میں سے ایک ہی کامیاب ہو رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
اقوام متحدہ کی ترجمان روینا شمداسنی کا جنیوا میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’آئی ایس آئی ایل جان بوجھ کر بعض مقامات پر مغوی عورتوں اور بچوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کی بزدلانہ حکمت عملی استعمال کر رہی ہے تاکہ فوجی کارروائیوں سے محفوظ رہا جا سکے۔‘‘