عراق میں قیدیوں کی بس پر حملہ ، کم از کم ساٹھ افراد ہلاک
24 جولائی 2014خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بغداد سے موصول ہونے والی اطلاعات کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ حملہ بغداد کے شمال میں پندرہ میل دور واقع تاجی نامی علاقے میں ہوا۔ اطلاعات کے مطابق پولیس ایک قافلے کی شکل میں ان قیدیوں کو بغداد لے جا رہی تھی کہ پہلے سڑک کے کنارے نصب بم پھٹے، جس کے بعد فائرنگ کا تبادلہ شروع ہو گیا۔ ایسی خبریں بھی ہیں کہ حملہ آوروں میں خود کش بمبار بھی شامل تھے۔
یہ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے، جب اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون اپنے مشرق وسطیٰ کے دورے کے دوران غیر اعلانیہ طور پر بغداد پہنچے ہیں۔ ان کے اس دورے کا مقصد عراقی سیاستدانوں پر زور دینا ہے کہ وہ ملک کے سیاسی بحران کے حل کے لیے ایک متحدہ حکومت کے قیام پر متفق ہو جائیں۔
جمرات کے دن بغداد میں عراقی وزیر اعظم نوری المالکی کے ساتھ ملاقات کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں بان کی مون نے کہا کہ عراق کو ایک بڑے خطرے کا سامنا ہے، ’’لیکن ایک مؤثر یونٹی حکومت کے قیام سے اس خطرے سے بچا جا سکتا ہے۔‘‘
بان کی مون نے عراق میں جاری پرتشدد کارروائیوں پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے مزید کہا کہ بغداد اور کرد خود مختار علاقے پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مل کر عراقی شہریوں کو تحفظ فراہم کریں۔
ایک سکیورٹی اہلکار نے بتایا ہے کہ بدھ کے دن تاجی کے ملٹری اڈے پر ایک مارٹر گولہ فائر کیا گیا تھا، جس کے بعد وہاں مقید ان قیدیوں کو بغداد منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ ان قیدیوں میں زیادہ تر ایسے سنی جنگجو شامل تھے، جن پر دہشت گردی کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔
ابتدائی طور پر یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ یہ حملہ کن حالات میں ہوا اور اس میں کتنے حملہ آور ہلاک ہوئے ہیں۔ طبی ذرائع کے مطابق دھماکوں کے باعث متعدد لاشیں مسخ ہونے کی وجہ سے ان کی پہچان ناممکن ہو گئی ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ انسانی حقوق کے سرکردہ اداروں کے مطابق نو جون سے لے کر اب تک حکومتی فورسز ڈھائی سو سے زائد ایسے قیدیوں کو ہلاک کر چکی ہیں، جن پر سنی انتہا پسندوں کے ساتھی ہونے کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔ ان اداروں کا الزام ہے کہ عراقی فورسز کئی مرتبہ قیدیوں کو اس لیے بھی ہلاک کر چکی ہے کیونکہ وہ اسلامک اسٹیٹ یا دیگر سنی جنگجو گروہوں کے ساتھ ہمدردری رکھتے تھے۔
جون میں 69 قیدیوں کو بغداد منتقل کرتے ہوئے بھی کچھ ایسا ہی واقعہ رونما ہوا تھا۔ تب ہلہ کے گورنر نے کہا تھا کہ جنگجوؤں نے حملہ کرتے ہوئے دس قیدیوں سمیت ایک پولیس اہلکار کو بھی ہلاک کر دیا تھا۔ تاہم ایک اعلیٰ پولیس اہلکار نے روئٹرز کو بتایا تھا کہ جنگجوؤں کی طرف سے ایسا کوئی حملہ نہیں کیا گیا تھا بلکہ پولیس نے ان 69 قیدیوں کو خود ہی ہلاک کر دیا تھا۔