1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق میں مجوزہ صوبائی انتخابات پر تشدد کے گہرے سائے

Kishwar Mustafa15 اپریل 2013

عراق سے امریکی فوج کے انخلاء کے بعد اس بحران زدہ عرب ریاست میں صوبائی انتخابات کے انعقاد سے کچھ ہی پہلے تشدد کی آگ پھر بھڑکتی دکھائی دے رہی ہے۔

تصویر: Reuters

عراق میں آج ہونے والے متعدد کار بم حملوں اور دھماکوں کے نتیجے میں کم از کم 23 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے ہیں۔ ماہرین و مبصرین کا کہنا ہے کہ عراق کے مجوزہ صوبائی انتخابات سے پہلے ملکی سلامتی کی صورتحال ایک مرتبہ پھر نہایت سنگین ہوگئی ہے۔ اس سے عراق میں مختلف گروپوں کے مابین کشیدگی میں اضافے کی بھی نشاندہی ہو رہی ہے۔

عراق سے امریکی فوج کے انخلاء کے بعد اس بحران زدہ عرب ریاست میں صوبائی انتخابات کے انعقاد سے کچھ ہی پہلے تشدد کی آگ پھر بھڑکتی دکھائی دے رہی ہے۔ آج مختلف شہروں میں سلسلہ وار کار بم حملوں کے نتیجے میں کم از کم 24 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق دو دھماکے بغداد کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے باہر قائم چک پوسٹ کے سامنے بھی ہوئے۔ فوری طور سے کسی نے بھی بغداد، کرکوک طوز خورماتو اور شمال سے جنوب تک دیگر متعدد شہروں میں ہونے والے ان حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ تاہم القاعدہ سے منسلک سنی عسکریت پسندوں کی طرف سے بار بار ملک کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش میں حکومت کے اہداف اور عام شہریوں دونوں پر حملے کیے جاتے رہے ہیں اور مبینہ طور پر امیدواروں اور آنے والے انتخابات کے انتخابی عہدے داروں کو خوف زدہ کرنے کی کوشش بھی جاری ہے۔

متعدد بم حملے 210 افراد زخمیتصویر: Reuters

20 اپریل کے مجوزہ صوبائی انتخابات سے پہلے گرچہ ملک میں سکیورٹی انتظامات سخت تر کر دیے گئے ہیں اس کے باوجود آج پیر کی صبح گہما گہمی کے اوقات میں ہونے والے متعدد حملوں میں 210 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ ان دہشت گردانہ کارروائیوں کے تناظر میں 20 اپریل کے انتخابات کی معتبریت کے بارے میں سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ ان انتخابات میں عراق کے 18 میں سے 12 صوبوں میں ووٹنگ ہونی ہے۔

دریں اثناء عراقی حکام نے کہا ہے کہ آج ملک کے مختلف حصوں میں 20 کار بم دھماکے ہوئے ہیں۔ ان میں دارالحکومت بغداد کے علاوہ، کرکوک، طوز خرماتو، موصل، تکریت، مرکزی شہر صمارہ، ہیلا، اور ناصریہ شہر شامل ہیں۔ بغداد سے شمال کی طرف واقع شہر بعقوبہ میں بھی ایک سڑک کنارے بم کے پھٹنے سے نقصان ہوا ہے۔ آج سب سے زیادہ خون ریز حملے بغداد میں ہوئے۔ آس پاس کے پانچ علاقوں کو چھ کار بم دھماکوں نے لرزا کر رکھ دیا۔

النصرہ کے جنگجوؤں کی کارروائیاں جاری ہیںتصویر: picture-alliance/AP

عراق میں سنی فقہ سے تعلق رکھنے والے باشندوں نے موجودہ شیعہ حکومت کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ تیز تر کر دیا ہے۔ اس کے پیچھے کار فرما عوامل کے بارے میں ڈوئچے ویلے کے ساتھ حال ہی میں نینوا کے گورنر اثیل النجیفی نے بات چیت کی۔عراق کے اصل مسئلے کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر عراق کے اندرونی مسائل حل ہو بھی جائیں تو بھی اسے ایران اور واشنگٹن کی طرف سے بیرونی مداخلت کا سامنا رہے گا۔ اُن کے بقول، 'ہم اپنے ملک پر آزادی سے اُس وقت حکومت کر سکیں گے جب کسی بھی غیر ملکی طاقت کا ہمارے معاملات میں زور نہ چلتا ہو گا۔ اصل مسئلہ اُس غیر ملکی نظام کا ہے جس کی جڑیں امریکا عراق پر قابض ہونے کے بعد یہاں بو گیا ہے۔ غیر ملکی فوج کے بغیر ہم عراق میں طاقت کی تقسیم عربوں، شیعوں، سنیوں اور کردوں کے درمیان کر سکتے ہیں‘۔

km/aba(AFP,AP)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں