1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق میں مختلف پر تشدد واقعات، کم ازکم 50 افراد ہلاک

23 فروری 2012

عراقی حکام نے بتایا ہے کہ جمعرات کو ملک بھر میں ہونے والے بم دھماکوں اور فائرنگ کے مختلف پر تشدد واقعات کے نتیجے میں کم ازکم 50 افراد ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہو گئے ہیں۔

تصویر: dapd

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے عراقی وزارت داخلہ کے حوالے سے بتایا ہے کہ تشدد کے زیادہ تر واقعات دارالحکومت بغداد میں رونما ہوئے، جہاں کم ازکم بائیس افراد مارے گئے۔ ان واقعات کے بعد سکیورٹی حکام نے جمعرات کے دن کو گزشتہ کئی ماہ کے دروان خونریز ترین قرار دیا ہے۔

شمالی بغداد میں واقع شعیوں کے مقدس علاقے خادمیہ میں ہوئے ایک کار بم دھماکے کے نتیجے میں چھ افراد مارے گئے جبکہ پندرہ زخمی ہوئے۔ جمعرات کو رونما ہوئے ان واقعات میں ادہامیہ نامی علاقے میں بھی چھ افراد مارے گئے۔ دریائے دجلہ کے ساتھ واقع اس علاقے میں نامعلوم مسلح افراد نے ایک سکیورٹی چوکی پر اچانک فائرنگ کر دی، جس کے نتیجے میں تین افراد زخمی بھی ہو گئے۔

مرکزی بغداد کے علاقے کرادا میں ایک خود کش کار حملے کے نتیجے میں ایک شخص ہلاک جبکہ گیارہ زخمی ہو گئے۔ اس حملے میں ایک سیکورٹی چیک پوائنٹ کو نشانہ بنایا گیا۔ اس حملے کے تیس منٹ بعد اسی علاقے میں ایک اور خودکش کار حملہ ہوا، جس میں ایک اور شخص ہلاک ہو گیا جبکہ چھ افراد زخمی ہوگئے۔

تشدد کے زیادہ تر واقعات دارالحکومت بغداد میں رونما ہوئےتصویر: dapd

جمعرات کے دن جنوب مغربی بغداد کے علاقے ام الملاف میں سڑک کے کنارے نصب دو بم پھٹنے اور سیکورٹی چوکی پر فائرنگ کے واقعات میں دو افراد لقمہ اجل بنے۔ اس واقعہ میں نو افراد زخمی بھی ہوئے۔ شمالی بغداد میں بھی سڑک کنارے نصب بم کے دھماکے کی وجہ سے دو افراد ہلاک ہو گئے۔ اسی طرح آج جمعرات کو عراق بھر میں دیگر پر تشدد واقعات بھی رونما ہوئے۔

گزشتہ برس دسمبر میں عراق سے امریکی افواج کے مکمل انخلاء کے بعد سے وہاں سیاسی بحران بڑھتا جا رہا ہے۔ مبصرین کے بقول اگر بغداد حکومت نے ملک کا سیاسی بحران حل کرنے کے لیے تمام سیاسی طاقتوں سے مشاورت نہ کی تو فرقہ وارانہ واقعات میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ عراق میں 2006ء اور 2007ء میں بھی سیاسی بحران کی وجہ سے فرقہ واریت کے نتیجے میں ہزاروں افراد مارے گئے تھے۔

رپورٹ: عاطف بلوچ

ادارت: عاطف توقیر

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں