عراق میں ’یوم غضب‘، پندرہ مظاہرین ہلاک متعدد زخمی
26 فروری 2011خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق قریب پانچ ہزار افراد دارالحکومت بغداد کے مرکزی طاہر چوک پر اکٹھے ہوئے۔ مشتعل مظاہرین نے سکیورٹی فورسز پر پتھراؤ کیا اور ساتھ ہی جوتے اور پلاسٹک کی بوتلیں بھی برسائیں۔ اس دوران حکومت کے خلاف ’یوم غضب‘ منانے والے مظاہرین نے اُس گرین زون میں داخل ہونے کی کوشش کی، جہاں عراقی پارلیمان اور امریکی سفارتخانہ واقع ہے۔
اے ایف پی کے نامہ نگار نے بتایا ہے کہ اب تک بغداد میں یہ سب سے بڑا مظاہرہ تھا۔ بتایا گیا ہے کہ ان مظاہرین اور سیکورٹی فورسز کے مابین تصادم کے نتیجے میں کم ازکم 130 افراد زخمی بھی ہو گئے۔ اس دوران چار حکومتی عمارات کو نذر آتش کر دیا گیا جبکہ ایک صوبائی گورنر نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
بغداد سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق جمعہ کی شام تک مظاہرین واپس لوٹ گئے تاہم سکیورٹی فورسز نے اس حساس علاقے کا کنٹرول سنبھالا ہوا ہے اور کسی کو بھی وہاں جانے کی اجازت نہیں ہے۔ اس وقت وہاں سکیورٹی کی بھاری نفری تعینات ہے۔
عراقی وزیراعظم نوری المالکی نے الزام عائد کیا ہے کہ ان مظاہروں کے پیچھے القاعدہ اور سابق عراقی آمر صدام حسین کے حامیوں کا ہاتھ ہے۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے، شر پسند عناصر کو موقع نہ دیں کہ وہ ملک کی سکیورٹی کو نقصان پہنچائیں۔
ملکی دارالحکومت بغداد کے علاوہ دیگر اہم شہروں میں منعقد کیے جا رہے حالیہ مظاہروں میں عوام بہتر معیار زندگی، ملازمتوں کے مواقع اور بدعنوانی کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
جمعہ کو منعقد کی گئی عوامی ریلیاں سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس کی مدد سے منظم کی گئی تھیں۔ فیس بک اور ٹوئٹر پر جعمہ کے مظاہرے کو ’یوم غضب ‘ کا نام دیا گیا۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق اس مظاہرے میں زیادہ تر نوجوانوں نے شرکت کی۔ مظاہرے میں شامل ایک نوجوان عامر راد نے کہا،’ آٹھ برس بیت چکے ہیں اور ابھی تک حکومت نے کچھ بھی نہیں کیا۔ الفاظ کا کھیل بند کیا جائے، اب ہمیں کچھ کر کے دکھایا جائے۔‘
بغداد کے علاوہ سمارا، فلوجہ، کوت، کربلا اور بصرہ میں بھی مظاہروں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ بصرہ میں مظاہروں کے بعد اس صوبے کے گورنر نے استعفیٰ دے دیا۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: عاطف توقیر