عراق میں 40 سے زائد سنی مجرموں کو تختہٴ دار پر لٹکا دیا گیا
26 ستمبر 2017عراق کی وزارت انصاف کے مطابق جن بیالیس مجرموں کی سزائے موت دی گئی ہے، اُن کی سزا پر عمل درآمد سے قبل تمام قانونی تقاضے پورے کیے گئے تھے۔ بیان کے مطابق یہ تمام مجرم اغواء، سکیورٹی فورسز کے خاندانوں کے افراد کو قتل کرنے، کار بم حملوں اور ایسے ہی دوسرے گھناؤنے جرائم میں ملوث تھے۔ عدالتی عمل کے دوران استغاثہ کی جانب سے مضبوط شواہد پیش کیے گئے اور اسی بنیاد پر ماتحت عدالتوں نے انہیں موت سزا دینے کا حکم سنایا تھا۔
اِن بیالیس مجرموں کو جنوبی عراقی شہر ناصریہ کی مرکزی جیل میں پھانسی گھاٹ پر چڑھا دیا گیا۔ یہ پھانسیاں اتوار چوبیس ستمبر کو دی گئی تھیں۔ موت سزا پانے والے سبھی سنی مسلمان بتائے گئے ہیں۔ وز ارت انصاف نے بتایا کہ ان تمام مجرموں کو مناسب اپیلوں کا حق بھی دیا گیا تھا۔ ان تمام مجرموں کی سزاؤں کی باضابطہ طور پر توثیق دستوری ادارے صدارتی کونسل نے بھی کی تھی۔
شام کی صرف ایک جیل میں 13 ہزار افراد کو پھانسی، ایمنسٹی
2015ء: پاکستان 324 پھانسیوں کے ساتھ دنیا میں تیسرے نمبر پر
یہ رواں برس کے دوران اجتماعی سزائے موت پر عمل درآمد کا سب سے بڑا واقعہ ہے۔ عراقی حکومت کو سزائے موت پر عمل کرنے کے تناظر میں سفارت کاروں، تجزیہ کاروں اور انسانی حقوق کے اداروں و کارکنوں کی جانب سے تنقید کا سامنا رہتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ عراق کا نظام انصاف غلطیوں سے مبرا نہیں ہے اور قانونی سقم موجود ہیں، جس کا فائدہ استغاثہ کو جاتا ہے اور مقید افراد بغیر مناسب انصاف کے سزا کے حقدار ٹھہرائے جاتے ہیں۔
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنٹسی انٹرنیشنل کے مشرق وسطیٰ ریسرچ ڈائریکٹر لین مالُوف نے موت کی سزاؤں کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان سے عراق ایک محفوظ ملک نہیں بن پائے گا۔ مالوف کے مطابق عراق میں کئی افراد کی زندگیاں غیرمنصفانہ عدالتی ظام کی وجہ سے ضائع ہو جاتی ہیں۔ ایمنسٹی کے اہلکار کے مطابق کئی مقید افراد کو شدید ٹارچر کے تحت اعترافِ جرم کرایا جاتا ہے۔