1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق: نیا وزیر اعظم منتخب نہ ہو سکا، معاملہ مؤخر

عابد حسین6 اگست 2014

عراقی پارلیمنٹ نے نئے وزیر اعظم کے انتخاب کو ملتوی کر دیا ہے۔ اب نئے وزیراعظم کا انتخاب جمعرات کو ہو سکتا ہے۔ موجودہ وزیر اعظم نوری المالکی وزارتِ عظمیٰ کے متمنی ہیں لیکن انہیں شدید مخالفت کا سامنا ہے۔

تصویر: Ahmad Al-Rubaye/AFP/Getty Images

عراق کا اگلا وزیراعظم کون ہو گا؟ یہ ایک مشکل سوال ہے جو عراق کے اندرونی مسلح خلفشار کے باوجود اہمیت کا حامل ہے۔ ایسا امکان تھا کہ نئے وزیراعظم کا انتخاب منگل پانچ اگست کے روز ہو جائے گا لیکن مرکزی سیاسی اتحاد کسی نام پر متفق نہیں ہو سکا۔ موجودہ وزیراعظم نوری المالکی ایک مرتبہ پھر وزیراعظم بننے کی تمنا رکھتے ہیں لیکن انہیں اپنے سیاسی اتحاد کے علاوہ کرد اراکینِ پارلیمنٹ کی بھی مخالفت کا سامنا ہے۔ کرد رکن پارلیمنٹ پروان مصلح کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کے نام پر اب مزید بحث جمعرات کے روز ہو گی۔

نوری المالکی کی سیاسی جماعت اسٹیٹ آف لا پارٹی حکومتی سیاسی اتحاد میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی جماعت ہے۔ سیاسی اتحاد زیادہ تر شیعہ جماعتوں پر مشتمل ہے۔ اس اتحاد میں شامل اکثريتی جماعتیں المالکی ہی کے وزارت عظمیٰ کے منصب پر براجمان رہنے کی مخالفت کر رہی ہیں۔ اُن کے مخالفین کا بھی کہنا ہے کہ نوری المالکی نے خود کو طاقت کا سرچشمہ بناتے ہوئے سنی اور کرد آبادیوں کو مرکزی دھارے سے الگ کر رکھا ہے اور اسی باعث سارا ملک انتشار کا شکار ہو چکا ہے۔

امکاناً عرااقی پارلیمنٹ جمعرات کو نیا وزیراعظم منتخب کر سکتی ہےتصویر: Ahmad Al-Rubaye/AFP/Getty Images

دوسری جانب خطے میں سیاسی اثر و رسوخ کا حامل ملک ایران بھی ایسی سوچ رکھتا ہے کہ نوری المالکی کو مزید وزارتِ عظمیٰ پر فائز نہیں رہنا چاہیے کیونکہ عراق میں وہ معاشرتی تقسیم کی علامت بن چکے ہیں۔ تہران حکومت کا خیال ہے کہ ایک متبادل لیڈر کی اشد ضرورت ہے جو سنی مزاحمتی عناصر کے خلاف بھرپور اقدامات کر سکے۔ عراق کے سب سے معتبر شیعہ رہنما آیت اللہ العظمیٰ علی سیستانی کا واضح طور پر کہنا ہے کہ نوری المالکی عراق کے اتحاد کو قائم رکھنے میں پوری طرح ناکام ہو چکے ہیں۔ ایک اعلیٰ ایرانی حکومتی اہلکار نے نام مخفی رکھتے ہوئے کہا کہ سیستانی بھی ایرانی مؤقف کے حامی ہیں اور متبادل قیادت سامنے لانے کا وقت آ گیا ہے۔

اُدھر عراق میں سنی انتہا پسند عسکری گروپ اسلامک اسٹیٹ نے شمالی عراق میں سِنجر اور زومر کے قصبات پر قبضہ کرنے کے بعد قدیمی اقلیت یزیدیوں کو الٹی میٹم دیا ہے کہ وہ فوری طور پر اسلام مذہب اختیار کریں یا جِزیہ ادا کریں یا پھر گھر بار چھوڑ کر کہیں اور منتقل ہو جائیں۔ الٹی میٹم میں کہا گیا ہے کہ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو انہیں قتل کر دیا جائے گا۔ اقوام متحدہ کے بچوں کے لیے مخصوص ادارے یونیسیف نے منگل کے روز بتایا کہ سِنجر قصبے کے چالیس بےگھر ہونے والے بچوں کو قتل کر دیا گیا ہے۔ عراقی پارلیمنٹ کے یزیدی اقلیت سے تعلق رکھنے والے رکن ویان داخیل نے عراقی حکومت اور عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ سِنجر اور زُومر کے پہاڑوں میں محبوس ہزاروں یزیدیوں کو ہلاک ہونے سے بچانے کے لیے عملی اقدامات کریں۔ یونیسیف کے مطابق پچیس ہزار بچے سِنجر کی پہاڑیوں میں مقید ہیں اور انسانی امداد کی منتظر ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں