1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق: پراسرار سلطنت کا ہزاروں سال قدیم محل پانی سے برآمد

28 جون 2019

عراق میں خشک سالی کی وجہ سے موصل ڈیم کا پانی بہت کم ہو چکا ہے لیکن وہاں سے ایک پُراسرار سلطنت کا تین ہزار چار سو سالہ قدیم محل نکل آیا ہے، جسے اس خطے کی ’اہم ترین آرکیالوجیکل دریافت‘ قرار دیا جا رہا ہے۔

Ruinen aus den Fluten des Tigris
تصویر: picture-alliance/dpa/Uni Tübingen/eScience

جرمنی کی ٹیوبنگن یونیورسٹی نے  حال ہی میں انکشاف کیا کہ جرمن اور کُرد ماہرین آثار قدیمہ کی ایک ٹیم نے تین ہزار چار سو سال پرانا ایک محل دریافت کیا ہے۔ محققین کے مطابق اس محل کا تعلق میتانی سلطنت سے ہے۔ میتانی تہذیب کا شمار اُن قدیم تہذیبوں میں ہوتا ہے، جن کے بارے میں آج تک بہت ہی کم حقائق سامنے آئے ہیں۔

بتایا گیا ہے کہ یہ محل خشک سالی کی وجہ سے دریافت ہوا کیونکہ موصل ڈیم میں پانی کا ذخیرہ انتہائی نچلی سطح تک پہنچ چکا ہے۔ اس سائٹ پر کام کرنے والے کُرد ماہر آثار قدیمہ حسن احمد قاسم کا کہنا تھا، '' گزشتہ چند عشروں میں آثار قدیمہ کے حوالے سے یہ دریافت اس خطے کی اہم ترین دریافت ہے۔ یہ جرمن اور کرد تعاون کی کامیابی کا ثبوت بھی ہے۔‘‘

ایک پُراسرار دریافت

گزشتہ برس ماہرین آثار قدیمہ نے میتانی سلطنت کی ان باقیات کو محفوظ بنانے کے لیے ایک ہنگامی منصوبے کا آغاز کیا تھا۔ اس نئے محل کی دریافت اس وجہ سے بھی اہم ہے کہ ابھی تک میتانی سلطنت کی بہت ہی کم باقیات ملی ہیں۔ یونیورسٹی آف ٹیوبنگن کی ماہر آثار قدیمہ ایوانا پولز کا کہنا تھا، ''میتانی سلطنت کا شمار قدیم مشرق وسطیٰ کی ان سلطنتوں میں ہوتا ہے، جن کے بارے میں بہت ہی کم تحقیق کی گئی ہے۔ ابھی تک اس سلطنت کے دارالحکومت کا بھی پتا نہیں چل پایا ہے۔‘‘

تصویر: picture-alliance/dpa/Uni Tübingen

سولہ سو سے بارہ سو قبل از مسیح یہ سلطنت ایشیا میں پھیلی ہوئی تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس سلطنت کے بادشاہوں کے نام سنسکرت زبان سے تعلق رکھتے تھے اور ان کے تعلقات قدیم مصری خاندانوں سے بھی تھے۔ تاہم اس حوالے سے ابھی بہت سی تحقیق ہونا باقی ہے۔ لیکن یہ واضح ہے کہ میتانی نامی شہر دریائے دجلہ اور دریائے فرات کے درمیانی علاقے (بین النہرین) سے لے کر موجودہ شام کے شمال تک پھیلا ہوا تھا۔ 

ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق اب ان کے پاس وقت کم ہی باقی بچا ہے کیوں کہ جلد ہی پانی کی سطح میں اضافہ شروع ہو جائے گا اور یہ کھنڈرات دوبارہ پانی میں ڈوب جائیں گے۔ تاہم ماہرین کو اس محل کے اندر سے دس تختیاں ملی ہیں۔ ایوانا پولز کا کہنا تھا، ''ہمیں دیواروں پر کی گئیں پینٹنگز کی باقیات ملی ہیں، جن میں ہلکے رنگوں کے ساتھ ساتھ سرخ اور نیلے رنگ کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔ شاید اس زمانے میں محلات کی دیواروں پر پینٹنگز بنانے کا رواج تھا لیکن ایسی پینٹگز کا قدرے بہتر حالت میں ملنا تقریباٍ ناممکن تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس محل سے ملنے والے ایسے آثار کو انتہائی اہم تصور کیا جا رہا ہے۔‘‘

یہ ٹیم اب ملنے والے ان تختیوں پر کندہ تصویری شکل کے نشانات کو پڑھنے اور ان کی تشریح کرنے کی کوشش کرے گی۔ ماہرین آثار قدیمہ کو امید ہے کہ ان تختیوں کی مدد سے میتانی سلطنت کے بارے میں مزید جاننے کا موقع ملے گا۔

ا ا / ک م 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں