عراق پر حملہ ایک صحیح فیصلہ تھا: گورڈن براوٴن
5 مارچ 2010عراق میں برطانوی مداخلت کی تحقیقات کرنے والے چلکوٹ کمیشن کے سامنے گورڈن براوٴن نے جمعہ کو کہا کہ سابق عراقی صدر ’’صدام حسین نے کئی برسوں تک بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑائی تھیں۔‘‘
سن 2003ء میں عراق میں امریکی فوجی مداخلت کے وقت گورڈن براوٴن برطانیہ کے وزیر خزانہ تھے جبکہ ٹونی بلیئر وزیر اعظم کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے تھے۔ چلکوٹ انکوائری کمیشن کے سامنے اپنے ابتدائی رد عمل میں گورڈن براوٴن نے کہا:’’عراق پر حملہ ایک صحیح فیصلہ تھا اور یہ صحیح مقصد کے لئے ہی کیا گیا۔‘‘ برطانوی وزیر اعظم براوٴن نے مزید کہا:’’جنگ کا فیصلہ سب سے کٹھن اور مشکل ہوتا ہے، لیکن صدام حسین کی حکومت کی طرف سے اقوام متحدہ کی منظور کردہ چودہ قراردادوں کی خلاف ورزی کے بعد عراق کو مذاکرات کے لئے مائل کرنا ناممکن بن گیا تھا۔‘‘
گزشتہ برس چوبیس نومبر کو سرکاری سطح پر باقاعدہ طور پر عراق جنگ کے بارے میں برطانوی کردار کی تفتیش شروع ہوگئی تھی۔ گورڈن براوٴن نے اس سلسلے میں پچھلے سال جون میں ہی سابق سیول سرونٹ John Chilcot کی سربراہی میں ایک پانچ رکنی انکوائری ٹیم تشکیل دی تھی۔ اس ٹیم کا کام جولائی سن 2001ء اور جولائی 2009ء کے درمیانی عرصے میں لندن حکومت کے فیصلوں کا تجزیہ کرنا اور 2003ء میں عراق میں برطانوی مداخلت کی وجوہات جاننا ہے۔ عراق جنگ کے وقت برطانوی وزیر دفاع جیف ہون سمیت کئی دیگر اعلیٰ سیاست دان تفتیشی کمیشن کے لئے گواہوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔
جان چلکوٹ کے مطابق اُن کی سربراہی میں تفتیشی ٹیم عراق میں برطانوی کردار کی اصل وجوہات کا پتہ لگائے گی۔ چلکوٹ کئی مرتبہ اس بات کی یقین دہانی کرواچکے ہیں کہ تفتیشی عمل مکمل طور پر ’’غیرجانبدار، شفاف اور صاف ہوگا۔‘‘ چلکوٹ کے بقول انہیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ برطانوی عوام اس تفتیش سے کیا توقعات وابستہ کئے ہوئے ہیں۔
سن 2003ء میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے عراق پر حملہ کردیا تھا، جس کا مقصد سابق صدر صدام حسین کی حکومت کا تختہ الٹانے کے علاوہ وہاں مبینہ طور پر موجود ’وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں‘ کا سراغ لگانا بتایا گیا۔ صدام کا تختہ الٹا دیا گیا، انہیں پھانسی بھی ہوئی تاہم وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا آج تک کوئی پتہ نہیں چلا۔
سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے اُس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بُش کا بھرپور ساتھ دیتے ہوئے اپنے ملک کے پینتالیس ہزار سے زائد فوجی عراق روانہ کر دئے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ جنگ غیر مقبول ہوتی گئی۔ امریکہ کی طرح ہی اس کے سب سے بڑے اتحادی ملک برطانیہ میں بھی عوام کی اکثریت اس جنگ کی مخالفت کرتی رہی، یہاں تک کہ برطانیہ میں لیبر پارٹی کے بعض حامی بھی عراق جنگ کی مخالفت کرتے نظر آئے۔
برطانیہ نے عراق جنگ کے نتیجے میں اپنے 179 فوجی گنوا دئے۔ ایک اندازے کے مطابق برطانیہ نے عراق جنگ پر ساڑھے آٹھ ارب پاوٴنڈ کی خطیر رقم داوٴ پر لگائی۔ اس جنگ کے دوران برطانوی فوجیوں پر عراقی مزاحمت کاروں کو حراستی مراکز اور تفتیشی کیمپوں میں شدید جسمانی اذیتیں پہنچانے کے سنگین الزامات بھی عائد کئے جاتے رہے۔
عراق جنگ میں مارے جانے والے فوجیوں کے اہل خانہ اور قریبی رشتہ داروں کے علاوہ اپوزیشن سیاست دان کافی عرصے سے اس جنگ کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے چلے آ رہے تھے۔ ان میں سے بیشتر کا یہ کہنا تھا کہ انٹیلی جینس معلومات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا اور عراق میں برطانوی مداخلت کے لئے غلط طریقے سے راہ ہموار کی گئی۔
برطانیہ میں اسی سال جون میں عام انتخابات منعقد ہو رہے ہیں۔ بعض سیاسی مبصرین اور تجزیہ نگاروں کے خیال میں عراق جنگ کی ’’انکوائری کا حتمی نتیجہ برطانوی حکومت کے لئے شرمندگی کا باعث ہوسکتا ہے۔‘‘
بعض عوامی جائزوں کے مطابق برطانوی وزیر اعظم گورڈن براوٴن کی جماعت لیبر پارٹی کو ان انتخابات میں شکست ہو سکتی ہے اور عین ممکن ہے کہ اگلی حکومت قدامت پسندوں کی ہو لیکن حال ہی میں کرائے گئے بعض سرویز میں گورڈن براوٴن کی مقبولیت کا گراف بہتر دکھایا گیا۔
عراق جنگ کے حوالے سے اس سے پہلے بھی دو سرکاری انکوائریز کرائی گئی ہیں۔ سن 2004ء میں عراق میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی مبینہ موجودگی کے حوالے سے کرائی گئی تفتیش میں بتایا گیا تھا کہ انٹیلی جینس کے بعض حصّوں کو غلط طریقے سے پیش کیا گیا تھا تاہم وزراء نے جان بوجھ کر عوام کو دھوکے میں نہیں رکھا۔
جان چلکوٹ کی ٹیم تیسری تفتیشی ٹیم ہے۔
رپورٹ: گوہر نذیر گیلانی
ادارت: کشور مصطفیٰ