عراق پر حملے کی مخالفت کرنے والے فرانسیسی صدر انتقال کر گئے
26 ستمبر 2019
فرانس کے سابق صدر ژاک شیراک 86 برس کی عمر میں انتقال کر گئے ہیں۔ شیراک عراق پر امریکی سربراہی میں ہونے والے حملے کے سخت مخالف تھے۔
اشتہار
سابق فرانسیسی صدر ژاک شیرک آج جمعرات 26 ستمبر کو پیرس میں انتقال کر گئے ہیں۔ ان کے داماد فریڈیرک سکالا بارو نے خبر رساں ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ شیراک اپنے چاہنے والوں کے درمیان 'پر امن انداز‘ میں انتقال کر گئے۔ انہوں نے شیراک کی موت کی وجہ نہیں بتائی تاہم اطلاعات کے مطابق شیراک شدید بیمار تھے اور گزشتہ کچھ عرصے سے عوامی سطح پر نظر نہیں آئے تھے۔
شیراک 1995ء سے 2007ء تک فرانس کے صدر رہے تھے۔ اس سے قبل وہ دو دہائیوں تک پیرس کے میئر بھی رہے۔ ان کے انتقال کی خبر ملنے پر فرانس کی نیشنل اسمبلی میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔ ان کے چاہنے والے پیرس میں واقع ان کی رہائش گاہ کے باہر پھولوں کے گلدستے لا رہے ہیں۔
کنزرویٹیو جماعت سے تعلق رکھنے والے شیراک کو امریکی سربراہی میں عراق میں 2003ء میں حملے کی شدید مخالفت کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ پہلے فرانسیسی رہنما تھے جنہوں نے ہولوکاسٹ میں فرانس کے کردار کو تسلیم کیا تھا۔
ژاک شیراک کے انتقال پر جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے دکھ کا اظہار کیا ہے۔ اپنے پیغام میں انہوں نے سابق فرانسیسی صدر کو جرمنی کا گہرا دوست قرار دیتے کہا، ''میں اس عظیم سیاستدان اور یورپی رہنما کے انتقال پر ان کے خاندان اور فرانسیسی قوم کے ساتھ افسوس میں شریک ہوں۔‘‘
عراق: امریکی جنگ کے دس سال بعد
تصویر: DW/K. Zurutuza
ڈراؤنا خواب جاری
گزشتہ دس برسوں میں تعمیر نو کے اربوں ڈالر کے منصوبوں کا اعلان کیا گیا لیکن ایک عام شہری کو آج بھی لوڈ شیڈنگ اور صاف پانی کی قلت کا سامنا ہے۔ ملک کا بنیادی ڈھانچہ آج بھی کمزور ہے، بدعنوانی عروج پر ہے، غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
ذاتی گھر کا خواب
جنگ اور عدم استحکام کی وجہ سے عراقی پناہ گزینوں کی تعداد میں حیران کن اضافہ ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اندورن ملک بے گھر ہونے والے عراقیوں کی تعداد 1.2 ملین بنتی ہے۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
بم دھماکے روز مرہ کا معمول
عراق کی مجموعی آبادی کا پانچواں حصہ دارالحکومت بغداد میں رہتا ہے۔ 33 ملین آبادی والے اس شہر میں آئے دن بم دھماکے ہوتے رہتے ہیں۔ شہریوں کو روزانہ درجنوں چیک پوائنٹس پر تلاشی کے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
اموات اور تباہی
عراق میں ہلاکتوں کے بارے میں اعداد و شمار جمع کرنے والے دارے ’باڈی اکاؤنٹ‘ کے مطابق صرف گزشتہ برس ہلاک ہونے والے عراقیوں کی تعداد 4568 تھی۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
خواتین کی مشکلات
عراق میں صرف چالیس فیصد خواتین پڑھ لکھ سکتی ہیں۔ دس سالہ بد امنی کی وجہ سے بیواؤں کی تعداد تمام تر پرانے ریکارڈ توڑ چُکی ہے۔ مالی مشکلات کی وجہ سے لڑکیوں کی کم عمری میں ہی شادیوں کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
بارودی سرنگیں
لوگوں کی زندگیوں کو اب بھی بارودی سرنگوں اور غیر تباہ شدہ دھماکہ خیز مواد سے خطرات لاحق ہیں۔ ان کی وجہ سے ملک کو آلودگی جیسے بڑے مسئلے کا بھی سامنا ہے۔ اقوام متحدہ کے ذرائع کے مطابق، 2.7 ملین سے زائد لوگ آلودہ ماحول میں رہ رہے ہیں۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
یورنیم کے تابکار عناصر
طبی اعداد و شمار کے مطابق عراق میں کینسر اور لیوکیمیا جیسے موذی عارضوں کیں حیران کن اضافہ ہوا ہے۔ نومولود بچوں کی اموات کی شرح ہیروشیما اور ناگاساکی سے بھی زیادہ ہے۔ اس کی ایک اہم وجہ یورنیم کے تابکارعناصر ہیں۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
سکیورٹی خدشات
حکومتی حمایت یافتہ مختلف قبائلی رہنماؤں نے اپنے علاقوں میں امن برقرار رکھنے کے لیے سن 2005ء میں 'عراق کے بیٹوں' کے نام سے ایک نیم فوجی گروپ قائم کیا لیکن کم اسلحے اور حکومتی کمزوریوں کی وجہ سے یہ القاعدہ کا اہم ہدف بنا ہوا ہے۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
عرب بہار کا آغاز ؟
دسمبر 2012 ءکے بعد سے عراق کے سنی اکثریتی علاقوں کے ہزاروں مظاہرین سڑکوں پر احتجاجی مظاہرے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس احتجاجی تحریک کو نام نہاد عرب بہار کا حصہ کہا جاتا ہے۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
بہتر مستقبل کی لڑائی؟
سُنی ملیشیا گروپ ’’1920ء ریولوشن بریگیڈ‘ وہ مسلح گروپ ہے، جو موجودہ حکومت کے خلاف لڑائی جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس گروپ کے چیف کمانڈر کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’جھوٹی جنگ مسلط کرنے والے ممالک کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ تعمیرنو میں مدد کریں۔‘‘