1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق: کردستان میں راکٹ حملوں سے ایک ہلاک متعدد زخمی

16 فروری 2021

شمالی عراق کے کردستان علاقے میں راکٹوں سے ایک امریکی ایئر بیس کو نشانہ بنایا گیا جس میں ایک غیر ملکی کانٹریکٹر ہلاک ہو گیا۔ گزشتہ ایک برس کے دوران امریکا کے زیر قیادت فورسز پر یہ مہلک ترین حملہ ہے۔

Irak Raketenangriff in Erbil
تصویر: Yunus Keles/AA/picture alliance

عراق میں امریکا کے زیر قیادت اتحادی افواج کا کہنا ہے کہ پیر کے روز شمالی عراق کے نیم خود مختار علاقے کردستان پر متعدد راکٹوں سے حملے کیے گئے جس میں ایک غیرملکی کانٹریکٹر ہلاک جبکہ پانچ عام شہری اور ایک امریکی فوجی زخمی ہوگیا۔

اتحادی فوج کے ترجمان کرنل وائنے مراٹو نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، ''ابتدائی اطلاعات کے مطابق آج رات براہ راست فائر کیے گئے راکٹ اربیل میں اتحادی افواج کے ٹھکانوں پر گرے۔ اس میں ایک سویلین کانٹریکٹر ہلاک ہوا جبکہ ایک امریکی فوجی اور دیگر پانچ عام شہری زخمی ہوئے۔''

ترجمان نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ ہلاک ہونے والے شخص کا تعلق بیرونی ملک سے تھا تاہم وہ امریکی شہری نہیں تھے۔ امریکی میڈیا کے مطابق زخمی ہونے والے پانچ کانٹریکٹر میں سے چار امریکی شہری ہیں۔

مزید پڑھیے: بغداد میں امریکی سفارت خانے پر راکٹوں سے حملے

صوبہ کردستان کے دارالحکومت اربیل کے سویلین ایئر پورٹ کے پاس ہی اتحادی افواج کا اڈہ ہے اور اسی کے قریب کم سے کم تین راکٹ آکر گرے۔ سکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ حملے کے بعد حفاظتی نکتہ نظر سے کچھ وقت کے لیے اربیل ایئر پورٹ کوبند کردیا گیا اور پروازں پر بھی روک لگادی گئی۔

تصویر: Azad Lashkari/REUTERS

یہ راکٹ حملے صوبہ کرکوک کی سرحد کے پاس ایربل کے جنوب میں واقع علاقے سے کیے گئے اور ان سے شہر کے مضافات میں رہائشی محلوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اس سے کاروں اور دیگر املاک کو بھی نقصان پہنچا ہے۔

کردستان کی صوبائی وزارت داخلہ کے مطابق رات کے تقریبا ًساڑھے نو بجے کے قریب اربیل اور اس کے مضافاتی علاقوں میں متعدد راکٹ فائر کیے گئے۔ حکام کا کہنا ہے کہ ان حملوں کی تفصیلی تفتیش شروع کر دی گئی ہے اور مقامی لوگوں سے کہا گیا ہے کہ آئندہ احکامات تک وہ اپنے گھروں میں ہی رہیں۔

عراقی صدر برہام صالح نے اپنی ایک ٹویٹ میں ان حملوں کو ''خطرناک لڑائی میں اضافہ اور مجرمانہ دہشت گردی کا حملہ'' قرار دیا۔ نیم خود مختار صوبے کردستان کے وزیر اعظم مسرور برزانی نے بھی اس حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔

یہ بھی پڑھیے: کرد جنگجوؤں نے تیرہ ترک یرغمالیوں کو قتل کردیا

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس بارے میں عراقی وزیر اعظم مصطفی الکاظمی سے بات کی ہے تاکہ اربیل اور بغداد کے سکیورٹی فورسز مل کر اس کی تفتیش میں تعاون کر سکیں۔ برزانی نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے اس سلسلے میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلینکن سے بھی بات چیت کی ہے اور مربوط طریقے سے اس واقعے کی تفتیش پر اتفاق کیا ہے۔

جنرل سلیمانی کی میت آبائی شہر کرمان پہنچا دی گئی

00:53

This browser does not support the video element.

حالیہ مہینوں میں بڑا حملہ

گزشتہ تقریبا ایک برس کے دوران عراق میں امریکا کے زیر قیادت فورسز پر ہونے والے حملوں میں سے یہ مہلک ترین حملہ ہے۔ عراق میں امریکی قیادت میں بیرونی افواج کے ساتھ ساتھ عراق اور اربیل کی فورسز بھی ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا سے بر سر پیکار ہیں۔

گزشتہ تقریبا ًدو ماہ میں پہلی بار عراق میں مغربی افواج یا پھر سفارتی مشن کو نشانہ بنایا گیا ہے جبکہ اربیل ایئر پورٹ پر گزشتہ پانچ ماہ کے بعد کوئی حملہ ہوا ہے۔   

سرایا اولیاء الدم نامی گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ اس نے کہا کہ یہ حملے عراق میں امریکی قبضے کے خلاف کیے گئے ہیں۔

 تاہم گروپ نے اپنے دعوے کے ثبوت میں کوئی شواہد فراہم نہیں کیے۔

مزید پڑھیے: داعش نے اسلحہ کیسے جمع کیا؟

عراق میں گزشتہ برسوں میں ایسے متعدد گروپ سامنے آئے ہیں جو اس طرح کے درجنوں حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے رہے ہیں۔ تاہم امریکا اور عراقی فورسز کا ماننا ہے کہ ان سب کا تعلق ایرانی حمایت یافتہ شیعہ گروپ کتائب حزب اللہ اور عصائب اہل الحق جیسے گروہوں سے ہے۔

گزشتہ برس کے اوائل میں بغداد ایئر پورٹ پر امریکا نے ایرانی فوجی جنرل قاسم سلیمانی کو ایک حملے میں ہلاک کردیا تھا تب سے یہ گروپ عراق میں امریکی تنصیبات کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔ 

عراق میں اس وقت امریکی اتحاد کے فوجیوں کی تعداد پہلے سے بہت کم ہوکر تقریبا ًساڑھے تین ہزار رہ گئی ہے جس میں تقریبا 2500 امریکی فوجی ہیں۔  ابھی یہ بھی واضح نہیں ہے کہ جو بائیڈن کی انتظامیہ عراق کے تئیں کیا حکمت عملی اپنائے گی۔

ص ز/  ج ا (اے ایف پی، روئٹرز، اے پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں