1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق کو ’تماشائیوں کی نہیں، مدد کی ضرورت‘

رائنر زولِش / مقبول ملک13 جون 2014

عراق میں مسلح جہادی گروپوں کی عسکری پیش قدمی کو یورپ کو دور سے بیٹھے صرف دیکھنا نہیں چاہیے۔ ڈوئچے ویلے کے تبصرہ نگار رائنر زولِش کے بقول بغداد کو مدد کی ضرورت ہے۔ عراق میں اس وقت یورپی سلامتی کو بھی چیلنج کیا جا رہا ہے۔

موصل میں آئی ایس آئی ایل کے مسلح جنگجوتصویر: Reuters

عراق کی موجودہ صورت حال پر رائنر زولِش اپنے تبصرے میں لکھتے ہیں:

’’ہماری سلامتی کا تحفظ ہندوکش کے علاقے میں کیا جا رہا ہے۔‘‘ یہ بات ایک بار سابق جرمن وزیر دفاع پیٹر اشٹرُک نے کہی تھی۔ مراد افغانستان میں فرائض انجام دینے والے جرمن اور دیگر مغربی ملکوں کے اتحادی دستے تھے۔ یہ بات آج بھی درست ہے لیکن خطرات سے عبارت منظر نامہ صرف ہندوکش تک ہی محدود نہیں بلکہ عراق میں موصل کے حالات کو بھی یورپی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا جا سکتا ہے۔

خود عراق میں داخلی سلامتی کے لیے یہ صورت حال تو پرخطر ہے ہی۔ مسئلہ صرف موصل کا نہیں۔ بات موصل، تکریت اور رمادی جیسے کئی عراقی شہروں کی ہے۔ گزشتہ چند روز کے دوران ایک کے بعد دوسرا عراقی شہر جہادی عناصر اور شدت پسند مسلمانوں کے مسلح گروپوں کے قبضے میں آتا چلا گیا۔ القاعدہ سے علیحدگی اختیار کرنے والے عسکریت پسندوں کے گروپ ’اسلامی ریاست عراق اور شام‘ یا ISIL نے تو یہ بھی کہہ دیا ہے کہ وہ بغداد پر قبضے کے لیے اپنی پیش قدمی جاری رکھے گا۔ موصل اور اس کے نواحی علاقوں سے لاکھوں شہری اپنی جانیں بچانے کے لیے دوسرے علاقوں کی طرف جا چکے ہیں۔

تصویر: SAFIN HAMED/AFP/Getty Images

عراق میں جہادی عناصر پورے ملک پر قابض ہو جائیں گے، یہ بات فی الحال قابل یقین نہیں ہے۔ اس کی وجہ وہ مزاحمت ہے جو شیعہ اور کرد ملیشیا گروپوں کی طرف سے زیادہ تر سنی اقلیتی آبادی والے عراقی شہروں میں دیکھنے میں آئے گی۔ عراق کی ہمسایہ ریاستیں اور دیگر علاقائی طاقتیں، مثلاﹰ ایران اور ترکی بھی ہاتھ پر ہاتھ رکھے صرف ایسا دیکھتے نہیں رہیں گے کہ اسلام پسند جہادی پورے عراق کو اپنے کنٹرول میں لینے کی کوششیں جاری رکھیں۔

ان جہادی قوتوں کی مسلسل پیش قدمی کے نتیجے میں خانہ جنگی کے شکار شام اور عراق کے کچھ علاقوں پر مشتمل ایسا شدت پسند سنی مذہبی علاقہ قائم ہو سکتا ہے، جو دنیا بھر کے جہادیوں کے لیے پرکشش اور ان کا تربیتی مرکز بھی بن سکتا ہو۔

بات یہ ہے کہ کسی بھی ریاست میں دہشت گردی کی حکمرانی قابل قبول ہو ہی نہیں سکتی۔ عالمی برادری دہشت گردی کی سرپرست کسی بھی ریاست یا لاقانونیت والے کسی بھی خطے کے قیام کی اجازت نہیں دے سکتی۔ اتنے پرخطر حالات میں عراقی عوام کا حق بنتا ہے کہ یورپ ہر ممکن حوالے سے ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرے اور کسی بھی طرح کی مدد سے ہاتھ نہ کھینچے۔

سوال یہ ہے کہ مغربی دنیا عراق کی مدد کس طرح کر سکتی ہے؟ کسی بھی طرح کی براہ راست فوجی مداخلت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ امریکا کو عراق میں جس طرح کے بھی حالات اور وجوہات کے سبب جو فوجی تجربہ ہوا، وہ ایک تلخ حقیقت ہے۔

اس وقت عراقی حکومت کی فوجی مدد کی جانی چاہیے، جس کا وعدہ امریکا نے بھی کیا ہے تاکہ دہشت کا جواب طاقت سے دیا جا سکے۔ اس کے علاوہ عراقی حکومت کے لیے ہر قسم کی امداد کو سیاسی فیصلوں اور بہتری سے مشروط کیا جانا چاہیے۔ عراق میں سیاسی طاقت اور اقتصادی وسائل کی تقسیم میں شیعہ اکثریت ہی نہیں بلکہ سنی اقلیت کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں