عراق کی ابتر معاشی و اقتصادی حالت، وجوہات اور حل
20 جولائی 2009عراق کو غيرملکی سرمايہ کاروں کی ضرورت ہے، جو ملک کے خستہ حال معيشی ڈھانچے، صنعت اور زراعت کو جديد بنا سکيں۔
عراق کی اقتصادی صورتحال کے بارے ميں ملک کے بہت سے ماہرين متفق ہيں کہ وہ بہت خراب ہے۔ اس پربھی اتفاق رائے پايا جاتا ہے کہ اس کی وجہ سابق صدام حکومت کی غلطياں ہيں۔ تيس برسوں ميں چار جنگوں، اور تيرہ سال تک جاری رہنے والی بين الاقوامی پابنديوں نے عراق کی اقتصاديت پر گہرے اثرات چھوڑے ہيں،جنہيں راتوں رات دور نہيں کيا جاسکتا۔
عراقی تاجر اور تاجروں کی ملک گير انجمن کی مجلس صدارت کے رکن شاکر علی کا کہنا ہے: ’’اقتصاديت صرف چند شعبوں ہی ميں کام کررہی ہے۔ صنعتی شعبہ، جنگ کے بعد مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے۔‘‘
تباہ شدہ اقتصاديت کے اثرات ہر طرف ديکھے جاسکتے ہيں۔ جنگ کے چھ سال بعد بھی بجلی کا نظام بحال نہيں کيا گيا ہے اور بجلی کے بغير کوئی کارخانہ کام نہيں کرسکتا۔ اس کے علاوہ بہت سے سرکاری ادارے نظرياتی بنياد پر کی جانے والی ناقص منصوبہ بندی کا نتيجہ ہيں اور اس لئے وہ حقيقی کاروباری تجارتی مقابلے کی صلاحيت نہيں رکھتے۔ حکومت کو رياستی کارخانوں کو نجی شعبے ميں دينے کے سلسلے ميں مشکلات کا سامنا ہے،کيونکہ کون سا تاجر ايک ايسے کارخانے يا ادارے کو خريدنے پر تيار ہوگا، جس کے ملازمين کی تعداد تين ہزار ہوجبکہ ضرورت وہاں صرف چھ سوکی ہو۔ اسی نسبت سے عراق ميں بے روزگاری کی شرح بہت زيادہ ہے۔
جرمنی کے شہر کولون ميں مقيم ماہر اقتصادی امور ڈاکٹر الحيالی نے کہا :’’وزارت محنت کے مطابق بےروزگاروں کی تعداد پندرہ لاکھ ہے۔ يہ وہ بےروزگار ہيں، جن کا اندراج سرکاری طور پر ہے۔‘‘
ڈاکٹر الحيالی کا کہنا ہے کہ عراق ميں بے روزگار افراد کی تعداد اس سےبہت زيادہ ہے کيونکہ بہت سے لوگ،مختلف وجوہات کے سبب اپنا اندراج نہيں کرانا چاہتے۔ اگرچہ حکومت نے غربت پر قابو پانے کے لئے ملک ميں ايک سماجی نظام قائم کيا ہے ليکن وہ بہت ناکافی ہے۔ شاکر علی نے کہا :’’ميں اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ عراق ميں تقريبا 23 فيصد شہری غربت کی سطح سے نيچے زندگی گذار رہے ہيں۔ وہ ساٹھ ڈالر ماہانہ سے بھی کم پر گذارا کررہے ہيں۔‘‘
شاکر علی نے يہ بھی کہا کہ عراقی معيشت کا سب سے بڑا مسئلہ يک رخی سرمايہ کاری ہے۔ ملک کی اقتصادی ترقی کا سارا دارومدار صرف تيل کی آمدنی پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس آمدنی کا 80 فيصد فوج اور پوليس کی تنخواہوں پر خرچ ہوجاتا ہے۔ اقتصادی ترقی پر صرف 20 فيصد خرچ کيا جاتا ہے۔
تاہم صدام حکومت کے خاتمے کے بعد، خاص طور پر ايران سے، مذہبی مقامات کی زيارت کے لئے آنے والوں کی تعداد ميں بہت اضافہ ہوا ہے، جس سے معاشی فائدے حاصل ہورہے ہيں۔ جنگ کی تباہ کاری کے بعد مکانات کی بھی شديد ضرورت ہے ۔
عراق کی اقتصاديت کا انحصار دو عوامل پر ہے۔ سياسی امن و استحکام،جس کی غير ملکی سرمايہ کاروں کو ضرورت ہوتی ہے اور پيٹرول کی قيمت۔
اقتصادی ماہرين کا اندازہ ہے کہ اس ملک کو اپنی اقتصاديت کو دوبارہ مضبوط پيروں پر کھڑا کرنے کے لئے امن کے 20 سال چاہئيں۔
رپورٹ : حسن حسین/ شہاب احمد صدیقی
ادارت : عاطف توقیر