1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق کی تعمیر نو پر اخراجات کے فوائد، نہ ہونے کے برابر

Afsar Awan6 مارچ 2013

امریکی ٹیکس گزاروں کے 60 بلین ڈالرز خرچ کیے جانے کے باوجود عراق کی مخدوش صورتحال پر خود عراق کے بھی رہنما سوال اٹھاتے نظر آتے ہیں کہ کیا عراق کی تعمیر نو پر اٹھنے والے اخراجات کا زیادہ مثبت نتیجہ سامنے آیا ہے۔

تصویر: picture-alliance/dpa

عراقی تعمیر نو کے لیے خصوصی انسپکٹر جنرل اسٹوارٹ بووین کی طرف سے کانگریس کے سامنے جو حتمی رپورٹ پیش کی گئی اس کا نتیجہ بہت واضح تھا کہ دس برس قبل اسی ماہ یعنی مارچ ہی میں کی جانے والی فوج کشی کے بعد سے اب تک امریکا بہت کم نتائج کے لیے بہت زیادہ رقم خرچ چکا ہے۔

عراق میں خرچ کیے جانے والے فنڈز کی حتمی آڈٹ رپورٹ آج بدھ کے روز جاری کی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے منعقد کیے جانے والے پریس ریویو کے دوران بووین نے ایسوسی ایٹڈ پریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تعمیر نو کی کوششیں ’اپنے حجم کے لحاظ سے اس سے کہیں زیادہ ثابت ہوئیں جن کا اندازہ لگایا گیا تھا۔ ان کا مزید کہنا تھا، ’’ جس قدر فنڈز خرچ کیے گئے ان سے فائدہ اس قدر حاصل نہیں کیا جاسکا۔‘‘

جس قدر فنڈز خرچ کیے گئے ان سے فائدہ اس قدر حاصل نہیں کیا جاسکا، اسٹوارٹ بووینتصویر: picture-alliance/dpa/dpaweb

بووین سے انٹریوز کے دوران عراقی وزیر اعظم نوری المالکی نے بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکی فنڈنگ ’’عراق میں عظیم تبدیلی لا سکتی تھی‘‘ مگر اس کا فائدہ بہت ہی کم ہوا۔ نوری المالکی کے مطابق، ’’رقم کو غلط طور پر خرچ کیا گیا۔‘‘

عراقی پارلیمان کے اسپیکر اسامہ النجافی نے بھی امریکی آڈیٹرز کو بتایا کہ تعمیر نو کی کوششوں کے ’’مجموعی طور پر زیادہ بہتر نتائج حاصل نہیں ہوئے۔‘‘

کُرد حکومت کے ایک اہلکار قباد طالبانی کے بقول، ’’ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ کسی مسئلے پر پیسہ پھینکنے سے وہ حل ہو جاتا ہے۔ یہ اسٹریٹیجک سوچ نہیں تھی۔‘‘ قباد طالبانی عراقی صدر جلال طالبانی کے بیٹے ہیں۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اس صورتحال سے کسی حد تک اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ افغانستان میں صورتحال کیا ہوگی، جہاں 12 سالہ جنگ کے دوران امریکی ٹیکس دہندگان کے 90 ارب ڈالرز تعمیر نو کے پراجیکٹس پر خرچ کیے جا چکے ہیں۔

مارچ 2003ء میں عراق پر امریکی حملے کے بعد کانگریس نے جنگ سے متاثر ہونے والے عراقیوں کے مسائل حل کرنے کے لیے 2.4 بلین کے فنڈ کی منظوری دی تھی۔ اس فنڈ کا مقصد عراق میں بجلی اور پانی کے نظام کی تعمیر نو، خوراک کی فراہمی، صحت کی سہولیات اور وہاں کے لوگوں کے لیے اچھی انتظامیہ کے قیام میں مدد کرنا تھا۔ اس کے علاوہ ایسے لوگوں کی دیکھ بھال بھی اسی فنڈ سے کی جانی تھی جو جنگ کے دوران اپنے گھروں سے محروم ہو گئے تھے۔

رقم کو غلط طور پر خرچ کیا گیا، نوری المالکیتصویر: AP

چھ ماہ سے بھی کم عرصے کے بعد اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے عراق کے مزید استحکام اور عراق کو اپنا حلیف بنانے کے لیے مزید 20 ارب ڈالرز کی اجازت طلب کر لی۔ تب سے اب تک امریکا عراق کو جنگ کے بعد اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے قابل بنانے کے لیے 60 ارب ڈالرز کی خطیر رقم خرچ کر چکا ہے۔

لیکن اب بھی حالت یہ ہے کہ عراقی حکومت بڑھتی ہوئی بدعنوانی کے خلاف نبرد آزما ہے اور بغداد کی سڑکوں پر خونریز بم دھماکے معمول ہیں۔ ملک کی کُل 31 ملین آبادی کی ایک چوتھائی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے ہے جبکہ زیادہ تر آبادی بجلی اور صاف پانی کی قابل بھروسہ سہولتوں سے عاری ہیں۔

امریکی گانگریس کے بجٹ آفس کے مطابق امریکی سربراہی میں ہونے والی عراق جنگ پر فوجی اور سفارتی مد کے علاوہ دیگر اٹھنے والے کُل اخراجات 767 بلین ڈالرز ہیں۔ جبکہ امریکا کے وفاقی بجٹ کے اعداد وشمار کا تجزیہ کرنے والے ایک ریسرچ گروپ "National Priorities Project" کے مطابق یہ اخراجات 811 بلین ڈالرز ہیں، جبکہ ابھی بھی بعض پراجیکٹس پر فنڈز لگائے جا رہے ہیں۔

aba/ia(AP)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں