عراق کی سیاسی بدامنی، مہاجرین کے بحران میں شدت
27 مئی 2016دنيا بھر ميں مہاجرين، پناہ گزينوں اور اپنے ہی ملک ميں بے گھر ہو جانے والے افراد کی تعداد دوسری عالمی جنگ کے بعد اس وقت اپنی بلند ترين سطح پر ہے۔ اس وقت لگ بھگ 60 ملین افراد جنگوں اور قدرتی آفات کے باعث اپنے گھرچھوڑ چکے ہیں۔ ایسے ہی حالات و واقعات سے متاثرہ ایک ملک عراق ہے، جہاں جنگی تنازع کے باعث اندرون ملک نقل مکانی کرنے والے افراد کی اس وقت تعداد لگ بھگ 3.4 ملین ہے۔ اس کے علاوہ عراقی شہریوں کی ايک بڑی تعداد اپنے ملک کو چھوڑ کر یورپ کا رخ بھی کر رہی ہے۔ اس سال اب تک جرمنی میں عراق سے تعلق رکھنے والے قریب 36000 افراد نے سیاسی پناہ کی درخواستیں دیں۔ جرمنی میں شام کے بعد سب سے زیادہ تعداد عراق سے آنے والے پناہ کے متلاشی افراد کی ہے۔
بہت بڑا انسانی المیہ
اس حوالے سے عراق میں نارویجین ریفیوجی کونسل کی ترجمان بیکی بکر عبداللہ نے ڈی ڈبلیو سے خصوصی بات چیت کی۔ ان کا کہنا ہے، ’’عراق میں 3.4 ملین افراد اندرون ملک نقل مکانی کر چکے ہیں وہ اپنے دوست احباب، اپنا گھر سب کچھ چھوڑ چکے ہیں۔ اس ليے کہ ان کے علاقوں میں مسلسل جنگ اور لڑائی جاری ہے۔‘‘ بکر عبداللہ کا کہنا ہے کہ عراقی کُرد علاقوں ميں ڈھائی لاکھ لوگ پناہ ليے ہوئے ہيں لیکن ان علاقوں سمیت پورے عراق میں امن و امان کی صورتحال انتہائی مخدوش ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ عراق کو ایک بڑے انسانی بحران کا سامنا ہے۔ اپنی جانوں کو بچانے کے لیے کچھ افراد عراق میں ہی نسبتاً محفوظ علاقوں کی طرف نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے اور کچھ اپنی زندگیوں کو داؤ پر لگا کر انتہائی خطرناک علاقوں اور سمندر کے راستے یورپ پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
گزشتہ برس شام، عراق اور افغانستان سميت چند ايشيائی اور شمالی افريقی رياستوں سے قريب 1.3 ملين افراد نے یورپ کا رخ کیا۔ ان میں سے 1300 سے زائد افراد خطرناک سفر میں اپنے زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ بکر عبداللہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنا گھر چھوڑنے والے جن خاندانوں سے بات کی ہے وہ سب واپس اپنے گھروں میں جانا چاہتے ہیں۔ وہ اپنی اور اپنے بچوں کی زندگیوں کو بچانا چاہتے ہیں اور اس کے علاوہ ایک بہتر مستقبل کی خاطر وہ انتہائی پر خطر راستوں سے یورپ کا رخ کر رہے ہیں۔
جی سیون ممالک انسانی بحران کے خاتمے کے ليے پر عزم
جی سیون ممالک کے سربراہان نے عراق میں اندرون ملک نقل مکانی کرنے والے افراد کی مدد کے لیے 3.6 ارب ڈالر کی امداد کا اعلان کیا ہے۔ ڈی ڈبلیو نے بکر عبداللہ سے پوچھا کہ کیا ایسے اقدامات سے عراق کی صورتحال میں بہتری اور عراق سے یورپ پہنچنے والے مہاجرین میں کمی آسکتی ہے، تو ان کا کہنا تھا، ’’مہاجرین کے بحران میں کمی تب تک نہیں آ سکتی جب تک ان بنیادی مسائل کو حل نہ کیا جائے، جن کی وجہ سے لوگ نقل مکانی اور ملک چھوڑنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ ان کے بقول عراق کی سیاسی قیادت اس مسئلے کا حل نکال سکتی ہے۔ نارویجین ریفیوجی کونسل کی ترجمان کا کہنا ہے کہ جنگ اس مسئلے کا حل نہیں۔ انہوں نے مزيد کہا، ’’اب جب کہ مہاجرین کا بحران ایک حقیقت ہے، تو یورپ کو ان افراد کے لیے ضروری اقدامات کرنا ہوں گے۔‘‘
فلوجہ کا بحران
عراق کے شہر فلوجہ میں اس ہفتے فوجی آپریشن شروع ہونے کے بعد لگ بھگ 154 خاندان انتہائی مشکل سے اپنی جانيں بچا کر 30 کلومیٹر دور واقع ایک کیمپ میں پہنچ چکے ہیں لیکن اب بھی لگ بھگ 50 ہزار شہری فلوجہ میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اس وقت شہر میں عراقی فوج اور عسکریت پسندوں کے مابین شدید لڑائی جاری ہے اور شہر سے باہر نکلنے کا کوئی محفوظ راستہ نہیں ہے۔ فلوجہ گزشتہ کئی ماہ سے اسلامک اسٹيٹ کے عسکریت پسندوں کے قبضے میں ہے۔ وہ لوگ جو وہاں سے بھاگنے میں کامیاب ہوئے ہیں ان کا کہنا ہے کہ وہاں نہ بجلی ہے، نہ کھانے کو کچھ ہے اور لوگ کئی ماہ سے دریا کے ذریعے پانی اور سوکھی کھجوریں کھا کر گزارا کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے این آر سی کی ترجمان کہتی ہیں،’’این آر سی سمیت دیگر بین الاقوامی امدادی اداروں کی کا مطالبہ ہے کہ اس لڑائی میں شامل تمام فريق جلد از جلد معصوم شہریوں کو شہر سے محفوظ انخلاء فراہم کریں تاکہ ان افراد کی مدد کی جاسکے۔‘‘
بکر عبداللہ کہتی ہیں کہ فلوجہ ایک مثال ہے اسی طرح پورے عراق میں جنگ جاری ہے۔ اسی سبب اس وقت ملک ميں ایسی صورتحال نہیں ہے کہ لوگ اپنے آپ کو محفوظ محسوس کریں اور واپس آنا چاہیں۔ انہوں نے مزيد کہا کہ وہاس مسئلے کو جلد حل ہوتے ہوئے نہیں دیکھ رہی ہیں۔