عراقی انتخابات کے ابتدائی اور جزوی نتائج کے مطابق مذہبی رہنما مقتدیٰ الصدر کا سیاسی اتحاد برتری حاصل کیے ہوئے ہے۔ دوسرے نمبر پر ایرانی حمایت یافتہ ہادی العامری جبکہ تیسرے نمبر پر وزیر اعظم حیدر العبادی کا سیاسی اتحاد ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے عراق میں بارہ مئی بروز ہفتہ منعقد کیے جانے والے پارلیمانی انتخابات میں موجودہ وزیر اعظم حیدر العبادی کا سیاسی اتحاد تیسرے نمبر پر ہے۔ ان ابتدائی نتائج کو ’غیرمعمولی‘ قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ عوامی جائزوں میں العبادی کی جیت کی پیش گوئی کی جا رہی تھی۔
ابتدائی جزوی نتائج کے مطابق مقتدیٰ الصدر کا سیاسی اتحاد ’ایم ٹی آر‘ اور اس کی کمیونسٹ الائنس عراق کے اٹھارہ صوبوں میں سے چھ میں سبقت لیے ہوئے ہیں جبکہ دیگر چار صوبوں میں دوسرے نمبر پر ہے۔
موصل میں زندگی کی رونقیں لوٹ رہی ہیں
01:52
سن دو ہزار تین میں امریکی عسکری مداخلت پر عسکری جدوجہد کرنے والے عراقی فوجی کمانڈر مقتدیٰ الصدر نے اس الیکشن کی مہم میں بدعنوانی کے خلاف مہم شروع کی تھی۔
اپنی سیاسی حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے مقتدیٰ الصدر نے خود کو ایران سے دور کیا ہے جبکہ سعودی عرب سے قربت اختیار کی ہے۔ عراق میں اسلامک اسٹیٹ کی مکمل پسپائی کے بعد پہلی مرتبہ منعقد ہونے والے اس الیکشن میں اب مقتدیٰ الصدر کی کامیابی پر گفتگو ہونا شروع ہو گئی ہے۔
اس الیکشن میں دوسرے نمبر پر سابق جنگجوؤں پر مشتمل سیاسی اتحاد ہے جس کی قیادت ہادی العامری کر رہے ہیں۔ اس گروہ نے عراق میں اسلامک اسٹیٹ کے خلاف جنگ میں اہم کردار کیا ہے۔ ابتدائی نتائج کے مطابق اس اتحاد کو چار صوبوں میں برتری حاصل ہے اور آٹھ صوبوں میں یہ دوسرے نمبر پر ہے۔ عراق کے پیچیدہ الیکشن نظام کے باعث ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ کون سی پارٹی حکومت سازی کرنے کے قابل ہو سکے گی۔
مقتدیٰ الصدر اس الیکشن میں بطور امیدوار میدان میں نہیں اترے تھے، اس لیے یہ یقینی ہے کہ وہ ملک کے وزیر اعظم نہیں بنیں گے۔ تاہم ناقدین کے مطابق وہ ’بادشاہ گر‘ ضرور ثابت ہوں گے۔ مبصرین کے مطابق عراق کی موجودہ صورتحال میں جو سیاسی اتحاد بھی حکومت سازی کرے گا، اسے متعدد مسائل کا سامنا ہو گا۔
اسلامک اسٹیٹ کی تباہ کاریوں کی وجہ سے عراق میں جہاں بنیادی شہری ڈھانچہ تباہ ہوا ہے، وہیں اس ملک کی معیشت بھی زبوں حالی کا شکار ہو چکی ہے۔ نئی حکومت کو ملک کی تعمیر نو اور بحالی کے ساتھ مذہبی بنیادوں پر بٹے ہوئے معاشرے کو بھی متحد کرنا ہو گا۔
ساتھ ہی امریکا اور ایران کے مابین نئی کشیدگی کے باعث عراق کی داخلی سیاست بھی اثر انداز ہو سکتی ہے۔ کئی سیاسی مبصرین نے خبردار کیا ہے کہ ایران اور امریکا کے مابین محاز آرائی کے نتیجے میں عراق ایک نئی مشکل کا شکار ہو سکتا ہے۔
ع ب / ا ع / خبر رساں ادارے
داعش کے خلاف برسر پیکار ایران کی کُرد حسینائیں
ایران کی تقریباﹰ دو سو کرد خواتین عراق کے شمال میں داعش کے خلاف لڑ رہی ہیں۔ یہ کردوں کی فورس پیش مرگہ میں شامل ہیں اور انہیں امریکی افواج کی حمایت بھی حاصل ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق جب بھی داعش کے عسکریت پسندوں کی طرف سے ایران کی ان کرد خواتین پر مارٹر گولے برسائے جاتے ہیں تو سب سے پہلے یہ ان کا جواب لاؤڈ اسپیکروں پر گیت گا کر دیتی ہیں۔ اس کے بعد مشین گنوں کا رخ داعش کے ٹھکانوں کی طرف کر دیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
اکیس سالہ مانی نصراللہ کا کہنا ہے کہ وہ گیت اس وجہ سے گاتی ہیں تاکہ داعش کے عسکریت پسندوں کو مزید غصہ آئے، ’’اس کے علاوہ ہم ان کو بتانا چاہتی ہیں کہ ہمیں ان کا خوف اور ڈر نہیں ہے۔‘‘ تقریباﹰ دو سو ایرانی کرد خواتین ایران چھوڑ کر عراق میں جنگ کر رہی ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
یہ کرد خواتین چھ سو جنگ جووں پر مشتمل ایک یونٹ کا حصہ ہیں۔ اس یونٹ کا کردستان فریڈم پارٹی سے اتحاد ہے۔ کرد اسے ’پی اے کے‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
چھ سو جنگ جووں پر مشتمل یہ یونٹ اب عراقی اور امریکی فورسز کے زیر کنٹرول اس یونٹ کے ساتھ ہے، جو موصل میں داعش کے خلاف برسر پیکار ہے۔ کرد جنگ جووں کا اپنے ایک ’آزاد کردستان‘ کے قیام کا بھی منصوبہ ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
مستقبل میں کرد جنگ جو شام، عراق، ترکی اور ایران کے چند حصوں پر مشتمل اپنا وطن بنانا چاہتے ہیں لیکن ان تمام ممالک کی طرف سے اس منصوبے کی شدید مخالفت کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی کرد باغیوں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ایک کرد خاتون جنگ جو کا کہنا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے لڑ رہی ہیں۔ وہ سرزمین چاہیے ایران کے قبضے میں ہو یا عراق کے وہ اپنی سر زمین کے لیے ایسے ہی کریں گی۔ ان کے سامنے چاہے داعش ہو یا کوئی دوسری طاقت اوہ اپنی ’مقبوضہ سرزمین‘ کی آزادی کے لیے لڑیں گی۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
اس وقت یہ خواتین مرد کردوں کے ہم راہ عراق کے شمال میں واقع فضلیہ نامی ایک دیہات میں لڑ رہی ہیں۔ ایک بتیس سالہ جنگ جو ایوین اویسی کا کہنا تھا، ’’یہ حقیقت ہے کہ داعش خطرناک ہے لیکن ہمیں اس کی پروا نہیں ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ایک جنگ جو کا کہنا تھا کہ اس نے پیش مرگہ میں شمولیت کا فیصلہ اس وقت کیا تھا، جب ہر طرف یہ خبریں آ رہی تھیں کہ داعش کے فائٹرز خواتین کے ساتھ انتہائی برا سلوک کر رہے ہیں، ’’میں نے فیصلہ کیا کہ ان کو میں بھی جواب دوں گی۔‘‘
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ان خواتین کی شمالی عراق میں موجودگی متنازعہ بن چکی ہے۔ ایران نے کردستان کی علاقائی حکومت پر ان خواتین کو بے دخل کرنے کے لیے دباؤ بڑھا دیا ہے۔ سن دو ہزار سولہ میں کرد جنگ جووں کی ایرانی دستوں سے کم از کم چھ مسلح جھڑپیں ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ان کے مرد کمانڈر حاجر باہمانی کا کے مطابق ان خواتین کے ساتھ مردوں کے برابر سلوک کیا جاتا ہے اور انہیں ان خواتین پر فخر ہے۔ ان خواتین کو چھ ہفتوں پر مشتمل سنائپر ٹریننگ بھی فراہم کی گئی ہے۔