1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق کے سیاسی مسائل، اثیل النجیفی کے ساتھ خصوصی انٹرویو

Marco Mueller8 اپریل 2013

عراق میں سنی فقہ سے تعلق رکھنے والے باشندوں نے موجودہ شیعہ حکومت کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ تیز تر کر دیا ہے۔ اس کے پیچھے کون سےعوامل کار فرما ہو سکتے ہیں۔ نینوا کے گورنر اثیل النجیفی کے ساتھ ڈوئچے ویلے کی بات چیت۔

تصویر: Reuters

سنی عراقیوں کی طرف سے حکومت مخالف احتجاج

نینوا صوبے کے گورنر ہونے کے باوجود اثیل النجیفی نے اسی صوبے کے شہر موصل میں ہونے والے حالیہ مظاہرے کا کھل کر ساتھ دیا۔ یہی نہیں بلکہ گزشتہ تین ماہ کے اندر انہوں نے متعدد بار مظاہروں میں حصہ بھی لیا۔ کیا یہ عمل غیر تعمیری نہیں؟ اس بارے میں اثیل النجیفی کہتے ہیں، مقامی لوگ پُر امن طریقے سے اپنے حقوق کا حصول چاہتے ہیں۔ وہ اپنے بنیادی حقوق کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر پانی، بجلی اور روزگار کا ۔ یہ باشندے ہر طرح کے تشدد کی مخالفت کرتے ہیں اور ملکی سیاست میں فعال کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم 2003ء میں عراق پر امریکی تسلط قائم ہونے کے بعد سے ملک میں مختلف گروپوں کے مابین طاقت کی تقسیم میں ایک واضح عدم توازن پیدا ہوا ہے۔ اس وقت بغداد کی شیعہ حکومت کی طرف سے سنی ایک کنارے کی طرف دھکیل دیے گئے ہیں‘۔

سنی اکثریت والے صوبوں میں ہونے والے مظاہروں کے بارے میں عراقی صدر نوری المالکی کا کہنا ہے کہ ان میں غیرملکی طاقتوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ تاہم نینوا کے گورنرکے خیال میں ہزاروں لاکھوں افراد کا سڑکوں پر نکلنا اور پُر امن انداز میں احتجاج کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ نوری المالکی کے یہ الزامات غلط ہیں۔

عراق میں دہشت گردانہ حملے سکیورٹی فورسز پر بھی ہوتے رہتے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

کیا شام کا بحران عراق کو ایک نئی جنگ کی طرف دھکیل رہا ہے

بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ ہمسایہ ملک شام کا بحران اور وہاں شیعہ سنی کشیدگی میں مسلسل اضافہ عراق کو ایک نئی جنگ کے دہانے پر کھڑا کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ اس بارے میں اثیل النجیفی کہتے ہیں کہ عراقی عوام شامی باشندوں کی مدد کے لیے تیار ہیں کیونکہ عراقی اور شامی عوام سرحد کے آر پار بسنے والے ایک ہی خاندان کے افراد ہیں۔ تاہم انہوں نے کہا، ہم اس بات کے خلاف ہیں کہ بغداد شامی حکومت کی حمایت کرے، ہم اقتصادی طور پر شام کی مدد کے لیے تیار ہیں لیکن صدر بشار الاسد کی طرف سے اپنے عوام کا قتل کرنے کا ساتھ ہم کسی صورت نہیں دے سکتے۔ ہمیں معلوم ہے کہ ہمارے عوام اس بارے میں ایک رائے نہیں رکھتے تاہم ہم اس تنازعے میں نہیں پڑنا چاہتے‘۔ نینوا کے گورنر کا کہنا ہے کہ شام کے بحران کے لیے مکالمت کی فضا قائم کرنے کے بجائے بغداد حکومت اپنے فوجی دستے شام بھیج رہی ہے، جن میں زیادہ تر شیعہ اہلکار شامل ہیں۔ یہ قانونی نظام کی خلاف ورزی ہے۔’ ہم بغداد میں تبدیلی چاہتے ہیں۔ عراقی حکومت کا خاتمہ ہونا چاہیے ورنہ مستقبل میں ہمیں بڑی مشکلات کا سامنا ہو گا‘۔

صوبائی انتخابات کیوں منسوخ؟

رواں ماہ اپریل میں الانبار اور نینوا میں صوبائی انتخابات ہونا تھے۔ تاہم انہیں منسوخ کر دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ نینوا کے گورنر کی نگاہ میں یہ ہے کہ نوری المالکی کو پتہ ہے کہ ان دو صوبوں میں انتخابی نتائج اُن کے لیے مایوس کُن ہوں گے اور یہ ثابت ہو جائے گا کہ عوام میں ان کی حکومت کی حمایت کتنی کم پائی جاتی ہے۔ النجیفی کو یقین ہے کہ ان انتخابات کی منسوخی کے حکومتی فیصلے کے خلاف مظاہروں میں اضافہ ہو گا۔

شیعہ عراقیوں کی طرف سے بصرہ میں امریکا مخالف مظاہرہتصویر: AP

نینوا اور کردوں کے خود مختار علاقے ARK کے مابین کشیدگی بھی گہری ہے خاص طور سے موصل اور اربیل جو ARK کا دارالحکومت ہے، کی عمل داری کے حق کے حوالے سے۔ تین سال کے بائیکاٹ کے بعد گزشتہ برس کرد سیاستدان دوبارہ سے نینوا میں اپنی سرگرمیاں شروع کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔

دونوں فریق جانتے ہیں کہ عراقی آئین کی شق نمبر 140 میں مرکزی حکومت اور کردوں کے متنازعہ علاقے کی حتمی حیثیت کی بات کی گئی ہے۔

نینوا کے گورنر اثیل النجیفی کہتے ہیں، ہم آج کرد علاقے کی خود مختاری تسلیم کرتے ہیں اور ہمارا ماننا ہے کہ ہمارا بھی ایک ایسا خود مختار علاقہ رکھنے کا حق ہے۔ یہ تمام انتظامی معاملات بغداد کی مرکزی شیعہ حکومت چلا رہی ہے اور ہم سب اس کے ماتحت ہیں۔ کردوں کے خود مختار علاقے ARK اور ہمارے مابین بجٹ کا معاملہ بھی اہم ہے۔ عراقی آئین کے مطابق موصل کو عراق کے کُل بجٹ کا 11 فیصد ملنا چاہیے تاہم اسے بمشکل 2 فیصد ملتا ہے۔ ہمیں گیس اور تیل کے منافع کا بھی ایک بہت چھوٹا حصہ ملتا ہے اور کردوں کو بھی یہی شکایت ہے۔ تہم ہم آئین کے آرٹیکل 140 پر متفق نہیں ہیں۔

اصل تنازعہ تیل کے ذخائر کا

النجیفی کے بقول نوری المالکی کی طرف سے ان پر کردوں کے ساتھ ایک خفیہ معاہدے پر دستخط کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ اس الزام کے تحت مالکی متعدد بار انہیں برطرف کرنے کی کوشش کر چُکے ہیں جبکہ ایسا کوئی معاہدہ طے نہیں ہوا ہے۔ یہ محض سیاسی تعاون کا معاملہ ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ عراق حکومت نے تمام تر تنازعات کے بعد کردوں کے ساتھ سمجھوتا طے کر لیا ہے اور ہمیں بالکل الگ تھلگ کر دیا گیا ہے۔ کرد خود مختار علاقے ARK نے اپنے معاملات کو آزادی کے ساتھ خود نمٹانے کا فیصلہ کر لیا ہے اور نینوا کو اُس تیل سے کوئی فوائد حاصل نہیں ہو رہے جن کے ذخائر ہمارے یہں موجود ہیں۔

عراق کا دوسرا بڑا شہر موصل اب بھی ایک خطرناک علاقہ ہے جو مسلم انتہا پسندوں کی پناہ گاہ بنا ہوا ہے۔ گرچہ سلامتی کی صورتحال گزشتہ چند برسوں میں بہت بہتر ہوئی ہے تاہم اب بھی یہاں مسلح سیل ہے جو ایران کے تعاون سے شیعہ ملیشیا کی پشت پناہی کر رہا ہے۔

عراقی سڑکوں پر گشت کرتے ہوئے امریکی فوجیتصویر: AP

عراق کا اصل مسئلہ داخلی صورتحال یا بیرونی مداخلت؟

اگر عراق کے اندرونی مسائل حل ہو بھی جائیں تو بھی اسے ایران اور واشنگٹن کی طرف سے بیرونی مداخلت کا سامنا رہے گا۔ کیا یہ ملک خود انحصاری کے ساتھ آزادی سے کام کر سکے گا؟ اس بارے میں النجیفی کا کہنا ہے، ’ہم اپنے ملک پر آزادی سے اُس وقت حکومت کر سکیں گے جب کسی بھی غیر ملکی طاقت کا ہمارے معاملات میں زور نہ چلتا ہو گا۔ اصل مسئلہ اُس غیر ملکی نظام کا ہے جس کی جڑیں امریکا عراق پر قابض ہونے کے بعد یہاں بو گیا ہے۔ غیر ماکی فوج کے بغیر ہم عراق میں طاقت کی تقسیم عربوں، شیعوں، سنیوں اور کردوں کے درمیان کر سکتے ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ خود امریکا نے ہمیں ہماری اپنی عرب بہار یا انقلاب سے محروم کر دیا ہے‘۔

Z.Karlos/M.Rob/km/aa

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں