1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق کے پارلیمانی انتخابات

عابد حسین30 اپریل 2014

آج بدھ کے روز عراق میں پارلیمانی الیکشن کا انعقاد ہو ا۔ ان انتخابات سے قبل، گزشتہ ہفتوں کے دوران عراق کو سنگین پرتشدد واقعات کا سامنا تھا۔ گزشتہ دو دونوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد پچاس سے زائد رہی

تصویر: picture-alliance/dpa

عراق میں امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد ہونے والے یہ پہلے عام انتخابات ہیں۔ عوام نے دہشت گردانہ دھمکیوں کے باوجود انتخابی عمل میں شرکت کی۔ مختلف شہروں اور قصبوں میں قائم کیے گئے پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹ ڈالنے والے علی الصبح قطاروں میں آ کر کھڑے ہو گئے تھے۔ حکام کے مطابق بعض علاقوں میں صبح کے وقت رائے شماری کا عمل سست تھا لیکن سہ پہر میں خاصی تیزی اور شدت دیکھی گئی۔ ووٹ ڈالنے والے عراقی، مستقبل میں حکومت سے امن و امان کی صورت حال بہتر کرنے کی توقع رکھتے ہیں۔ عراقی عوام کو دہشت گردی کے علاوہ گھمبیر سماجی و معاشرتی مسائل کا بھی سامنا ہے۔

نے دہشت گردانہ دھمکیوں کے باوجود انتخابی عمل میں شرکت کیتصویر: SABAH ARAR/AFP/Getty Images

انتخابی عمل کے دوران سیاسی جماعتوں نے پوری قوت سے اپنی انتخابی مہم کو آگے بڑھایا۔ جلسے و جلوسوں کے علاوہ مختلف ٹیلی وژن چینلوں پر سیاسی جماعتوں کے منشور پر بحث و تمحیص کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ بدھ کے روز ہونے والے انتخابات میں فرقہ وارانہ عصبیت، نسلی تعصب اور مذہبی منافرت کی بنیاد پر ووٹرز میں تقسیم واضح طور پر دکھائی دی۔ ایسے اندازے بھی لگائے گیے کہ پرتشدد واقعات کی وجہ سے لوگوں ووٹ ڈالنے کے بجائے گھروں میں رہنے کو ترجیح دیں گے لیکن بعض مقامات پر ایسا نہیں ہوا اور ووٹرز باہر نکلے۔

الیکشن کے دن بھی عراق میں ووٹنگ کے ساتھ ساتھ فضا بوجھل رہی۔ مختلف حملوں میں کم از کم دو خواتین کی ہلاکت کو رپورٹ کیا گیا ہے۔ سکیورٹی ذرائع کے مطابق چالیس سے زائد مارٹر گولے باغیوں کی جانب سے داغے گئے۔ دستی بم اور سڑک کنارے رکھے گئے بم پھٹنے کا بھی بتایا گیا۔ کئی پولنگ اسٹیشنوں کو بھی جنگجووں نے نشانہ بنانے کی کوشش کی۔ دارالحکومت بغداد کے شمال میں ایک پولنگ اسٹیشن پر مسلح افراد نے قبضہ کرنے کے بعد عملے کو باہر نکال کر دھماکے سے اِسے اڑا دیا۔

نوری المالکی ووٹ ڈالتے ہوئےتصویر: ALI AL-SAADI/AFP/Getty Images

شورش زدہ ملک عراق کی پارلیمنٹ کی 328 نشستوں کے لیے کُل 9,012 اُمیدوار میدان میں ہیں۔ گزشتہ دو دنوں میں پرتشدد واقعات میں 50 سے زائد افراد کی ہلاکت ہوئی تھی۔ عراقی الیکشن کمیشن کے مطابق صوبہ انبار کے صرف 70 فیصد علاقے میں ووٹنگ کا انعقاد ممکن ہوا۔ اس صوبے کے شہروں فلوجہ اور رمادی پر حکومت مخالف عسکریت پسندوں نے اپنا راج قائم کر رکھا ہے۔ فلوجہ اور رمادی پر اسلامی ریاست برائے عراق و شام سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسند قابض ہیں اور مالکی حکومت کی فوج کئی ہفتوں سے فوجی آریشن شروع کیے ہوئے ہے لیکن ابھی تک انہیں کوئی بڑی کامیابی نہیں ملی۔

گزشتہ آٹھ برسوں سے اقتدار میں رہنے والے وزیراعظم نوری المالکی نے کہا ہے کہ الیکشن میں جیت یقینی ہے۔ وزیراعظم مالکی نے ووٹرز کا بار بار حوصلہ بڑھایا ہے کہ وہ ووٹ ڈالنے کے عمل میں جوق در جوق شریک ہوں کیونکہ اسی رائے شماری سے تشدد پر تکیہ کرنے والی قوتوں کو ناکامی ہو گی۔ الیکشن میں کامیابی کی صورت میں نوری المالکی تیسری مدت کے لیے وزیراعظم کا منصب سنبھال سکتے ہیں۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں