عراقی دارالحکومت بغداد میں حکومت مخالفین پر نامعلوم افراد کے حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر 25 ہو گئی ہے۔ حکومت نے فوج کو مظاہروں کے مقام پر متعین کر دیا ہے۔
اشتہار
عراقی دارالحکومت بغداد میں حکومت مخالف مظاہرین پر نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ اور چاقو کے حملوں میں کم از کم پچیس ہلاک اور ایک سو تیس سے زائد زخمی ہوئے۔ ہلاک شدگان میں تین پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔ ایک فوٹو جرنلسٹ احمد مہنا بھی حملہ آوروں کی گولیاں کا نشانہ بنا۔
ابھی تک حملہ آوروں کے حوالے سے کوئی تفصیل سامنے نہیں آئی۔ یہ حملے بغداد میں مظاہروں کے مرکزی مقام تحریر اسکوائر اور الخیلانی چوک میں کیے گئے۔ عینی شاہدین کے مطابق حملہ آور چار موٹر کاروں پر سوار تھے۔ وہ بلا اشتعال مظاہرین کی جانب خود کار ہتھیاروں سے فائرنگ کرتے رہے۔
یہ حملے جمعہ اور ہفتہ سات دسمبر کی درمیانی شب میں کیے گئے۔ ان حملوں کے بعد عراقی فوج کے دستوں کو تحریر اسکوائر اور الخیلانی چوک کے ارد گرد تعینات کر دیا گیا ہے۔ فوجیوں کی تعیناتی کی تصدیق بغداد آپریشنز کے نگران جنرل قیس الحمودی نے بھی کر دی ہے۔
مظاہرین پر کیے گئے حملوں کے بعد ہفتے کے روز عراقی مظاہرین بغداد کے علاوہ کئی دوسرے شہروں میں احتجاج میں شریک رہے۔ ان شہروں میں ناصریہ اور نجف خاص طور پر اہم ہیں۔ عراقی شہروں میں جاری احتجاجی سلسلے میں شریک مظاہرین کی تعداد مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔
حکومت مخالف مظاہروں کو سخت گیر مذہبی رہنما مقتدیٰ الصدر کی حمایت بھی حاصل ہے اور ان کی حامی نیم عسکری تنظیم 'سرایہ السلام‘ یا امن بریگیڈز کے کارکن بھی مظاہروں کا حصہ بن چکے ہیں۔ بظاہر یہ لوگ مظاہروں میں بغیر اسلحے کے شریک ہو رہے ہیں۔ سرایہ السلام کے مطابق بغداد میں کیے گئے حملوں میں اُس کے کارکن بھی مارے گئے ہیں۔
عراق کی سب سے اہم مذہبی شخصیت آیت اللہ العظمیٰ علی سیستانی نے ہلاکتوں پر افسوس اور حملوں کی مذمت کرتے ہوئے اراکین پارلیمان کو ہدایت کی ہے کہ وہ بغیر کسی بیرونی دباؤ کے فوری طور پر ملک کے نئے وزیراعظم کا انتخاب کریں۔
دوسری جانب ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ ایک اعلیٰ ایرانی کمانڈر نے نئی عراقی حکومت کی تشکیل کے تناظر میں رواں ہفتے کے دوران عراق کا دورہ بھی کیا ہے۔ عراق میں پھیلی سیاسی بے چینی کے دوران نجف میں ایرانی قونصل خانے پر بھی مظاہرین نے چڑھائی کرتے ہوئے اسے آگ لگا دی تھی۔
ع ح ⁄ ا ب ا (ڈی پی اے، اے پی)
عراق میں احتجاجی مظاہرے، بیسیوں افراد ہلاک
عراق میں گزشتہ تین روز سے غربت اور بے روزگاری کے خلاف جاری احتجاجی مظاہروں میں کم از کم 44 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ مزید مظاہروں کے پیش نظر دارالحکومت بغداد میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔ حالات مزید کشیدہ ہو سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Mohammed
احتجاجی مظاہرے پھیلتے ہوئے
یکم اکتوبر کو ہزاروں مظاہرین نے بغداد میں حکومت مخالف مظاہروں میں شرکت کی۔ ان کے مطالبات میں بدعنوانی کا خاتمہ، بے روزگاری میں کمی اور بہتر عوامی سہولیات کی فراہمی شامل تھے۔ مظاہرین نے شہر کے حکومتی عمارات اور غیرملکی سفارت خانوں والے گرین زون میں داخل ہونے کی کوشش بھی کی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. al Mohammedaw
پولیس کا کریک ڈاؤن
پولیس نے مظاہرین کی گرین زون میں داخل ہونے کی کوشش کا جواب آنسو گیس، سڑکوں کی بندش اور ربڑ کی گولیوں اور لائیو فائرنگ سے دیا۔ مظاہرین نے التحریر اسکوائر چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ اس دوران دو سو سے زائد مظاہرین زخمی اور ایک ہلاک ہو گیا۔ اسی دن عراق کے کئی دیگر شہروں میں بھی درجنوں افراد زخمی ہوئے اور ایک شخص مارا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Mohammed
صبر و تحمل کی اپیل
نئی عراقی حکومت کو اقتدار سنبھالے ابھی صرف ایک سال ہی ہوا ہے۔ ان مظاہروں کے بعد بغداد میں سکیورٹی بڑھا دی گئی اور عراقی صدر نے مظاہرین سے قانون کی پاسداری کرنے کی اپیل کی۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کے اعلٰی اہلکاروں نے اس صورتحال پر ’گہری تشویش‘ ظاہر کی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/F. Belaid
مزید احتجاج، مزید ہلاکتیں
اس کے باوجود مظاہرین نے اپنا احتجاج جاری رکھا۔ دو اکتوبر کو بغداد کے پرانے حصے میں مظاہروں کا آغاز ہوا۔ پولیس مظاہرین سے نمٹنے کے لیے وہاں پہلے ہی موجود تھی اور نئے سرے سے فائرنگ کے واقعات بھی پیش آئے۔ شام تک مزید سات افراد ہلاک ہو چکے تھے اور دو دن میں ہی ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر نو ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Mizban
احتجاجی مظاہرے پھیلتے ہوئے
یہ احتجاجی مظاہرے بغداد سے ملک کے جنوبی حصوں تک پھیل رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ فسادات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ کئی علاقوں میں مظاہرین نے سرکاری عمارات کو آگ بھی لگا دی۔ عراقی وزیر اعظم نے ان مظاہروں کا الزام ’جارحیت پسندوں‘ پر عائد کرتے ہوئے ایک ہنگامی قومی سکیورٹی اجلاس طلب کر لیا۔ کئی سیاستدان حکومت اور کئی دیگر مظاہرین کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Mizban
بغداد میں کرفیو لیکن ہلاکتیں جاری
ابھی تک ملک کے کئی حصوں میں جاری احتجاج کے نتیجے میں کم از کم 44 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ جنوبی شہر ناصریہ میں اب تک 18 اور بغداد میں 16 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ زخمی ہونے والوں کی تعداد بھی سینکڑوں میں ہے۔ عراق کے اعلیٰ شیعہ رہنما سید علی حسینی سیستانی نے فریقین سے پرامن رہنے کی اپیل کی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Mohammed
عراق کا سفر نہ کریں!
قطر کی وزارت خارجہ نے اپنے شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ فی الحال عراق کا سفر کرنے سے گریز کریں۔ خلیجی ملک بحرین نے بھی اسی طرح کا ایک انتباہی پیغام جاری کیا ہے۔ ایران نے بھی اپنے شہریوں کو عراق جانے سے روک دیا ہے۔ بغداد حکومت نے بھی سرحدوں کی نگرانی سخت بنانے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Al-Rubaye
ایران کا اسرائیل اور امریکا پر الزام
ایران کے ایک سینئر اہلکار اور سیاستدان محمد امامی کاشانی نے بدامنی کے ان واقعات کا الزام اسرائیل اور امریکا پر عائد کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ممالک نہیں چاہتے کہ عراق میں رواں ماہ کے اواخر میں کربلا کا اجتماع پرامن طریقے سے ہو۔ ایران ماضی میں بھی ایسے ہی الزامات عائد کرتا آیا ہے۔
تصویر: Reuters/K. al-Mousily
حالات مزید بگڑ سکتے ہیں
عراقی حکومت نے بغداد کے ساتھ ساتھ تین دیگر جنوبی شہروں میں بھی غیرمعینہ مدت کے لیے کرفیو نافذ کر دیا ہے۔ دوسری جانب ملک بھر میں مظاہرے پھیلتے جا رہے ہیں۔ دارالحکومت کے نواح میں ہوائی اڈے کے قریب بھی مظاہرے جاری ہیں۔ عراق اور ایران کی سرحد بھی بند کر دی گئی ہے۔