عرب احتجاجی تحریکیں اور مغربی دُنیا کا طرزِ عمل
31 مارچ 2011جرمن دارالحکومت میں یہ مباحثہ گرین پارٹی سے نظریاتی قربت رکھنے والی ہائنرش بوئل فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام منعقد ہوا اور اِس میں لیبیا میں فوجی مداخلت کے فیصلے کے درست ہونے کا سوال بھی زیرِ بحث آیا۔
تیونس اور مصر میں آنے والے انقلابات کو تو جرمنی میں فراموش بھی کیا جا چکا ہے حالانکہ تیونس اور قاہرہ کے تحریر چوک سے آنے والی تصاویر ہفتوں تک ٹیلی وژن پر خبروں اور جائزوں کا موضوع رہی تھیں۔ بہرحال بن علی اور مبارک کی معزولی اب ہفتوں پرانی بات ہو چکی ہے اور انقلاب کی چنگاری ہمسایہ لیبیا تک پہنچ کر وہاں ایک خونریز خانہ جنگی کے آغاز کا بھی باعث بن چکی ہے۔ مغربی دُنیا کی فوجی مداخلت کے نتیجے میں عرب دُنیا کی احتجاجی تحریکیں ایک طویل بین الاقوامی تنازعے کی صورت اختیار کرتی نظر آتی ہیں۔
اردن کے سیاسی امور کے ماہر معین ربانی کا کہنا تھا:’’مَیں سمجھتا ہوں، یہ بات بالکل قابلِ فہم ہے کہ لیبیا کے باغیوں نے پریشان ہو کر یورپی مداخلت کی درخواست کی۔ لیکن میرے خیال میں بالآخر مداخلت کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہو گا۔ ہمیں اِس مداخلت کے طویل المدتی نتائج پر غور کرنا ہو گا۔ اگر یہ مداخلت بڑھ کر لیبیا پر ایک طویل قبضے کی شکل اختیار کر جائے تو مجھے اِس پر کوئی تعجب نہیں ہو گا اور اِس کے نتائج ناقابلِ اندازہ ہوں گے۔‘‘
ربانی کے خیال میں لیبیا کے باغیوں کی کسی اور طرح سے بھی مدد کی جا سکتی تھی مثلاً اُنہیں قذافی کے خلاف مسلح کیا جا سکتا تھا۔ اِس مباحثے میں الجزائر سے آئی ہوئی خاتون صحافی اور مصنفہ غانیہ موفوق نے بھی کچھ اِسی طرح کے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جرمنی نے مداخلت کے حق میں رائے نہ دے کر محتاط طرزِ عمل اختیار کیا۔ موفوق کے مطابق جنوبی امریکہ، پورے لاطینی امریکہ، چین اور روس نے بھی یہی کیا اور یوں چند ارب انسانوں نے جنگ کی مخالفت کی، پھر بھی اِسے بین الاقوامی اتحاد کا نام دیا جا رہا ہے۔
موفوق کہتی ہیں:’’جب یہ احتجاجی تحریکیں زوروں پر تھیں، تب فرانس میں ساری توجہ اِس سوال پر مرکوز کی جا رہی تھی کہ کہیں یہ تحریکیں ہمارے استحکام کو تو خطرے سے دوچار نہیں کریں گی؟ کہیں مسلمان انتہا پسند تو مزید مضبوط نہیں ہو جائیں گے؟ کہیں اسرائیل تو خطرے سے نہیں دوچار ہو جائے گا؟ ہمیں تیل تو کافی مقدار میں ملے گا ناں؟ ہمیں تارکینِ وطن کے سیلاب کا تو سامنا نہیں کرنا پڑے گا؟ یہ وہ یکطرفہ سوچ ہے، جو ہمارے ہاں نفرت کو جنم دیتی ہے۔ تب اچانک ہم سوچنے لگتے ہیں کہ کیا مَیں، میرے بچے اور اُن کی آئندہ نسل محض اِس لیے دُنیا میں آئی ہے کہ مغربی دُنیا میں لوگ استحکام کے حالات میں زندگی گزار سکیں؟‘‘
یورپ اور امریکہ میں درحقیقت سنجیدگی کے ساتھ اِس موضوع پر بحث ہوتی رہی ہے کہ آیا مشرقِ وُسطیٰ کی اَقوام واقعی اِس قابل ہیں کہ وہاں جمہوریت آ سکے۔ یہ طرزِ فکر نوآبادیاتی دور کی یاد دلاتی ہے، جب سفید فام قابض اَقوام اِس موضوع پر بحث کیا کرتی تھیں کہ آیا افریقہ کے سیاہ فام واقعی انسان بھی ہیں۔
برلن میں سائنسی علوم اور سیاست کی فاؤنڈیشن سے وابستہ مُوریل آسے بُرگ نے عرب دُنیا کی احتجاجی تحریکوں کے لیے مغربی دُنیا کی زیادہ حمایت پر زور دیتے ہوئے کہا:’’اب تک ہم جو کچھ کر رہے ہیں، وہ اُس سے کہیں کم ہے، جو ہمیں اپنی اَقدار اور اپنے تصورات کے مطابق اِس علاقے میں کرنا چاہیے تھا۔‘‘
آسے بُرگ نے اسرائیلی فلسطینی تنازعے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مغربی دُنیا اگر اپنی ساکھ برقرار رکھنا چاہتی ہے تو اُسے وہی مطالبے اسرائیل سے بھی کرنے چاہییں، جو وہ عرب حکمرانوں سے کرتی رہتی ہے۔
رپورٹ: بیٹینا مارکس / امجد علی
ادارت: عدنان اسحاق