عرب اسپرنگ کے خطے پر منفی اثرات
27 جون 2012ایک نئے صدر کے انتخاب کی تاریخ پہلے سے طے تھی۔ تاہم مالی کے فوجی تب تک انتظار نہیں کرنا چاہتے تھے۔ مارچ 2012 ء کے اواخر میں فوج نے مالی کے صدر کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے امادو تومانی تور کو عہدے سے بر طرف کر دیا تھا۔
مالی کے فوجیوں کا کہنا تھا کہ صدر امادو ملک میں امن قائم کرنے اور شمالی علاقے کے باغی قبائلیوں کو کنٹرول میں رکھنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ مالی کے دارالحکومت باماکو میں سال کے شروع ہی میں بربر سے تعلق رکھنے والی ایک قوم طوارق اور اُن کے حامیوں نے مل کر اپنا اثر و رسوخ بڑھاتے ہوئے حکومت کے خلاف جنگ کی تھی۔ ایسا انہوں نے پہلی بار لیبیا کے سابق آمر رہنما معمر قذافی کی مدد سے کیا تھا۔ تاہم مالی کے حکام زیادہ عرصے تک قذافی کی مدد نہیں چاہتے تھے، انہوں نے جلد ہی سیاسی قیادت اپنے ہاتھ میں لے لی۔
مالی میں تاہم فوجی بغاوت کے بعد سے اور زیادہ افراتفری اور عدم استحکام پیدا ہو گیا ہے۔ ملکی آئین کو معطل کر دیا گیا، صدرتی انتخابات منسوخ ہوگئے اور تمام ریاستی اداروں کو تحلیل کرنے کا اعلان کر دیا گیا۔ غیر ارادی طور پر فوجی بغاوت کے بعد شمال میں باغیوں کو مزید تقویت مل گئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ باغیوں نے نا صرف تمام شمالی علاقوں کو اپنے قبضے میں لے لیا بلکہ مغربی علاقے ٹمبکٹو پر بھی دھاوا بول دیا۔ اس طرح نئی ریاست ’آزاواد‘ میں زیادہ تر بربر سے تعلق رکھنے والی قوم طوارق ہی کا غلبہ ہے۔ طوراق باشندے پہلے ہی سے یہ محسوس کر رہے تھے کہ سابقہ حکومتوں نے انہیں ہمیشہ نظر انداز کیا ہے۔
مالی میں عرب اسپرنگ کی انقلابی مہم کے منفی اثرات نمایاں ہیں۔ افریقہ سے تعلق رکھنے والے کرائے کے قاتل، جن میں سے بہت سے طوارق بربر تھے اور جنہوں نے سالوں قذافی کے لیے جنگیں لڑیں اور کرائے کے قاتل ہونے کا معاوضہ لیتے ہوئے اپنا گزر بسر کیا، قذافی حکومت کے خاتمے کے بعد یہ سب اپنے اپنے ملکوں کو لوٹ گئے۔ ان افریقی ممالک میں مالی، چاڈ، نائجیراور مریطانیہ شامل ہیں۔ طوارق کرائے کے قاتل نہ صرف اپنے ملکوں کو لوٹ گئے بلکہ وہ اپنے ہتھیار بھی ساتھ لے گئے۔ لیبیا میں گولہ بارود اور ہتھیاروں کے ڈپو پر چھاپہ مار کر طوارق باشندوں نے ہتھیار اپنی تحویل میں لے لیے تھے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ لیبیا کے سابق رہنما قذافی کی ہلاکت کے بعد اور ہتھیاروں کے پورے خطے میں پھیلنے کے سبب مالی کی صورتحال انتہائی خراب ہے۔
A.a/km/Kj/Ng